The news is by your side.

میز چپ چاپ گھڑی بند کتابیں خاموش !(شاعری)

مصطفی زیدی اردو کے مشہور شاعر اور اعلیٰ سرکاری عہدے دار تھے جو اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے تھے. پراسرار حالات میں مصطفی زیدی کی اچانک موت ،خود کشی تھی یا قتل یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا. مصطفی زیدی ایک بلند آہنگ اورایسے قادرالکلام شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں جدید لفظیات کو بھی کامیابی کے ساتھ برتا، خاص طور پر مصطفی زیدی کی نظمیں‌بہت پراثر ہیں. یہاں ہم اردو کے معروف شاعر مصطفی زیدی کی ایک نظم نقل کررہے ہیں . ملاحظہ کیجیے.

میز چپ چاپ گھڑی بند کتابیں خاموش
اپنے کمرے کی اداسی پہ ترس آتا ہے
میرا کمرہ جو مرے دل کی ہر اک دھڑکن کو
سالہا سال سے چپ چاپ گنے جاتا ہے
جہد ہستی کی کڑی دھوپ میں تھک جانے پر
جس کی آغوش نے بخشا ہے مجھے ماں کا خلوص
جس کی خاموش عنایت کی سہانی یادیں
لوریاں بن کے مرے دل میں سما جاتی ہیں
میری تنہائی کے احساس کو زائل کرنے
جس کی دیواریں مرے پاس چلی آتی ہیں
سامنے طاق پہ رکھی ہوئی دو تصویریں
اکثر اوقات مجھے پیار سے یوں تکتی ہیں
جیسے میں دور کسی دیس کا شہزادہ ہوں

میرا کمرہ مرے ماضی کا حقیقی مونس
آج ہر فکر ہر احساس سے بیگانہ ہے
اپنے ہم راز کواڑوں کے احاطے کے عوض
آج میں جیسے مزاروں پہ چلا آیا ہوں
گرد آلودہ کلنڈر پہ اجنتا کے نقوش
میرے چہرے کی لکیروں کی طرف دیکھتے ہیں
جیسے اک لاش کی پھیلی ہوئی بے بس آنکھیں

اپنے مجبور عزیزوں کو تکا کرتی ہیں
یہ کتابیں بھی مرا ساتھ نہیں دیتیں آج
کیٹسؔ کی نظم ارسطوؔ کے حکیمانہ قول
سنگ مرمر کی عمارت کی طرح ساکت ہیں
تو ہی کچھ بات کر اے میرے دھڑکتے ہوئے دل
تو ہی اک میرا سہارا ہے مرا مونس ہے
تو ہی اس سرد اندھیرے میں چراغاں کر دے
لکشمی دیوی تو مری بات نہیں سن سکتیں
مجھ کو معلوم ہے کیا بیت چکی ہے تجھ پر
میرے چہرے کے سلگتے ہوئے زخموں کو بھی دیکھ
میری آنکھوں پہ مری فکر پہ پابندی ہے
میں اسے چاہوں بھی تو یاد نہیں کر سکتا

تو اسے کھو کے مچل سکتا ہے رو سکتا ہے
اور میں لٹ کے بھی فریاد نہیں کر سکتا
اسی آئینے نے دیکھے ہیں ہمارے جھگڑے
یہی زینہ ہے جہاں میں نے اسے چوما تھا
ان قمیضوں میں ان الجھے ہوئے رومالوں میں
اس کے بالوں کی مہک آج بھی آسودہ ہے
جو کبھی میری تھی انکار پہ بھی میری تھی
اب فقط بزم تصور میں نظر آتی ہے
رات بھر جاگ کے لکھی ہوئی تحریروں سے
اب بھی ان آنکھوں کی تصویر ابھر آتی ہے
چاندنی کھل کے نکھر آئی ہے دروازے پر
اوس سے بھیگتے جاتے ہیں پرانے گملے
کس قدر نرم ہے کلیوں کا سہانا سایہ
جیسے وہ ہونٹ جنہیں پا کے بھی میں پا نہ سکا
اے تڑپتے ہوئے دل اور سنبھل اور سنبھل
یہ تری چاپ سے جاگ اٹھیں گی تو کیا ہوگا

صبح کیا جانے کہاں ہوتی ہے کب ہوتی ہے
جانے انسان نے کس وقت یہ نعمت پائی
میری قسمت میں بس اک سلسلۂ شام و سحر
میرے کمرے کے مقدر میں فقط تنہائی

شاید آپ یہ بھی پسند کریں