The news is by your side.

باکو کی سیر اور کراچی کی یاد

اندرونِ ملک سیر و سیاحت شاید ہمارے لیے آسان ہو، لیکن بیرونِ ملک گھومنے پھرنے کے لیے جانے کا ارادہ کریں تو جیب سے لے کر اپنے کام کاج اور گھر بار تک بہت کچھ دیکھنا سوچنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ایک اچھی پیشکش آپ کی منتظر ہو، جس میں اخراجات کم ہوں، اور گھومنے پھرنے، قیام کرنے کی سہولت کے ساتھ خاصی رعایت دی جارہی ہو تو پھر زیادہ سوچنا نہیں چاہیے۔ میں بھی ایسا ہی کیا جب مجھے آذربائیجان کے تاریخی اہمیت کے حامل اور سب سے بڑے تجارتی مرکز باکو کی سیر کی آفر کی گئی اور میرا یہ سفر یادگار ثابت ہوا۔

یہ تحریر نہ تو آذربائیجان کا سفرنامہ ہے اور نہ ہی باکو شہر کے بارے میں کوئی فیچر رپورٹ۔ میں باکو کے دو بڑے قدیم ترین اور تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کی مختصر معلومات کے ساتھ وہ مسرت بھری اور کچھ حیرت انگیز یادیں آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں، جو میرے نزدیک اہم ہیں۔ میں‌ نے باکو کو جدید طرز کی عمارتوں اور بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ قدیم و جدید روایت اور ثقافت کا ایسا شہر پایا جو بلاشبہ قابلِ ذکر ہے۔ اس سے بڑھ کر میں نے یہاں‌ کے ماحول اور طرزِ تعمیر میں‌ بڑی کشش محسوس کی اور پھر پاکستان کے بڑے شہر کراچی کی حالتِ زار پر کڑھنے لگی۔

قارئین، آذربائیجان کی تاریخ اور وہاں‌ کے اہم ثقافتی مقامات کے بارے میں انٹرنیٹ پر آپ آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ میں مختصراً بتاؤں تو آذربائیجان ایک ایسا ملک ہے جہاں تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور اسے سر زمینِ آتش بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ صدیوں‌ سے آباد ہے اور مؤرخین کے مطابق معروف سیاح مارکو پولو نے بھی 13 ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تھا اور اس کے قدرتی وسائل اور حسن کی تعریف کی تھی۔ یہ ملک بنیادی طور پر قدرتی گیس کے وافر ذخائر کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں آگے ہے۔ دوسری طرف باکو کی بات کریں تو یہاں‌ کی روایات اور ثقافت میں زرتشت مذہب کی وہ آگ بہت اہمیت رکھتی ہے جو نجانے کب سے جل رہی ہے اور اس سے کئی داستانیں‌ اور لوک کہانیاں منسوب ہیں۔ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک زرتشت مذہب میں آگ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ زرتشتیوں کے لیے ان کے خدا تک رسائی اور طاقت کا منبع ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کی کئی رسمیں‌ آگ سے جڑی ہوئی ہیں۔ صدیوں‌ پہلے انسان اسی طرح طاقت ور، ضرر رساں یا عقل و فہم سے بالاتر چیزوں کو خدا مان لیتا تھا۔ وہ ان کی عبادت کرتا تھا جیسا کہ سورج، چاند کو پوجنا اور اسی طرح آگ کو مقدس یا معبود خیال کرنا۔ لیکن چوں کہ آذربائیجان کی زمین میں‌ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں‌ تو وہاں‌ کئی مقامات پر آگ بھڑک رہی ہے اور آج ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں‌ ہے۔ تاہم زرتشت عقیدے میں‌ یہ آگ کئی مندروں اور عبادت گاہوں‌ کی بنیاد رکھنے کا باعث بنی اور ان کے رسم و رواج اور ثقافت میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔

باکو کے دورے میں ایک روز میں اپنی فیملی اور دیگر احباب کے ساتھ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے مشہور مقام ’ینار داگ‘ پہنچی جو ایک پہاڑی مقام ہے اور وہاں‌ کا آتش کدہ دیکھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں جو آگ بھڑک رہی ہے، اس کے شعلے ہزاروں سال سے اسی طرح‌ اٹھ رہے ہیں۔ ایک سو میٹر بلند اس پہاڑی کا ذکر مارکو پولو نے بھی اپنی ایک کتاب میں کیا تھا۔ یہ ہی نہیں‌ بلکہ آذربائیجان میں آگ کے شعلوں‌ کا نظارہ کئی دوسرے علاقوں میں بھی کیا جاسکتا ہے جہاں‌ کئی سال سے آگ کے آلاؤ روشن ہیں۔ تاہم اس ملک کے پہاڑی نما جزیرے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی آگ ایک لمحے کو بھی نہیں بجھ سکی ہے۔

آسمان سے برستا ہوا تھوڑا بہت پانی ہو یا طوفانی بارش، اس آگ کو کوئی نہیں‌ بجھا سکا۔ ینار داگ کی آتش گاہ کے بارے میں بہت سے لوگ ناقابلِ یقین واقعات سناتے ہیں اور افسانے بیان کرتے ہیں جس کی حقیقت صدیوں کے دوران کہیں‌ گم ہوچکی ہے۔

کہتے ہیں‌ کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں آبادی نے اپنی فکر اور خیالات کے مطابق ایک مذہب اپنایا اور وہ مختلف ادوار میں اور سلطنتوں کے عروج و زوال کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا اور آذربائیجان میں کئی قدیم قربان گاہیں، مندر اور آتش کدے بنائے گئے جن کے آثار آج بہت کم دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہرحال، یہ طے ہے کہ اس سرزمین کے آتش کدوں‌ اور ان کے بھڑکتے رہنے کی ایک وجہ زمین کی سطح پر تیل کا جمع ہوجانا ہے جن میں سورج یا کسی دوسری وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی اور پھر شعلے بھڑکتے رہتے۔ زرتشتوں نے ان پر آتش کدے تعمیر کیے جو ان کے لیے خدائی صفات سے معمور مقام اور ایک روحانی مرکز ہیں۔ ہم نے دو بڑے آتش کدوں‌ ینار دگ اور مشہور ترین آتش گاہ سورا خانی کی سیر کی۔ آتش گاہ دارالحکومت باکو سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایک ایسی کھلی وسیع دالان والی عمارت ہے جس میں پتھروں کی دیوار بنائی گئی ہے اور ان کے ساتھ قدیم دور میں حجرے بھی تعمیر کیے گئے تھے جہاں یقیناً عبادت کرنے والے اور زیارت کے لیے آنے والے قیام کرتے ہوں گے۔ اسے عام طور پر آتش گاہ کہتے ہیں۔ ہم باکو سے نکلے تو کچھ کلومیٹر سفر کرنے کو بعد سور خانی کے علاقے میں تھے۔ وہاں‌ ایک معبد یا مندر موجود تھا جسے مقامی لوگ صرف آتش گاہ کہتے ہیں۔ یہ یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ اس کی عمارت کے اطراف جو کمرے ہیں، ان میں عبادت اور رہائش کے لیے مخصوص کمروں کے علاوہ اناج اور دوسری اشیاء ذخیرہ و محفوظ کرنے والے کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ میرے لیے باکو کے یہ دو آتش کدے بہت پراسرار، اور دل چسپی کے حامل رہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر میں نے شہر کے ماحول، ثقافت اور انفراسٹرکچر کو بھی بہت توجہ اور دل چسپی سے دیکھا جس کا تذکرہ میں‌ یہاں کررہی ہوں۔

باکو شہر میں ان مقامات کی سیر کے ساتھ ہم مختلف علاقوں میں سڑکوں اور شاپنگ مالز میں بھی گھومتے رہے اور صبح یا دن کے وقت ہی نہیں رات کو بھی ہوٹل سے باہر نکلے لیکن حیرت انگیز طور پر خوب صورت اور پختہ سڑکوں‌ کے اطراف سبزہ یعنی گرین بیلٹ، صفائی ستھرائی متاثر کن تھی۔ کراچی جو میرا شہر ہے، لوٹ مار، چھینا جھپٹی کے علاوہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چھوٹی سڑکیں‌ تو ایک طرف مرکزی شاہراہیں بھی تزئین و آرائش سے دور، ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور اکثر مقامات پر تجاوزات کی وجہ سے بدنما نظر آتی ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ باکو اس قدر منظم طریقے سے تعمیرات کے ساتھ ایک قانون اور ضابطے میں‌ ڈھلا ہوا کیسے ہے۔ کراچی بھی تو ملک کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے اور ہمارے پاس ذہین و قابل لوگ ہیں جو کسی بھی شہر کو ترقی اور ایک منظم شکل دینے کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ پھر یہ سب کیوں؟

دوسری طرف ہم نے رات کے وقت سڑکوں‌ پر گھومتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کیا اور اس کے ساتھ ایک حیرت انگیز بات یہ بھی تھی کہ ہم نے ہوٹل کے عملے، اور لوگوں کو بلاضرورت غیرملکیوں کو دیکھتے ہوئے، اور انھیں ہراساں یا تنگ کرتے ہوئے نہیں‌ پایا۔ مقامی لوگوں سے اتنا واسطہ تو نہیں پڑا مگر بظاہر وہ معاون اور مددگار نظر آتے تھے۔ یا پھر ہم سے یکسر انجان اور بے نیاز اور یہ بھی اچھی بات تھی۔ آذربائیجان میں میرے کان میں ایک دو جگہ ایسے الفاظ پڑے جو ہماری زبان کا حصہ تھے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور بعد میں‌ معلوم ہوا کہ ان کی زبان میں ترکی اور فارسی کے کئی الفاظ شامل ہیں۔ اس ملک کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن یہاں کی تہذیب و‌ ثقافت پر یورپ کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے ملبوسات جدید طرز کے اور ان کا میل جول بھی آزادانہ تھا۔ یہاں فن و ثقافت کو فروغ دینے کی روایت حکومت نے برقرار رکھی ہے اور جبھی اکثر جگہ ہلکی موسیقی کان میں پڑتی رہی اور رقص بھی دیکھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہاں سرکاری طور پر کوئی پابندی نہیں کہ کسی کا لباس کیسا ہے یا وہ کیا کھاتا پیتا ہے۔ تاہم یہاں کے مسلمان کسی بھی طرح‌ کی بے جا آزادی اور لوگوں کا حد سے تجاوز کرنا بھی پسند نہیں‌ کرتے۔ قانون کی پاس داری کرنا یہاں‌ لازمی ہے اور کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے پر گرفت کی جاتی ہے۔ الغرض باکو کی چند روزہ سیر سے ثابت ہوا کہ آذربائیجان کی حکومت اور عوام بھی اپنی شناخت اور روایت کو براقرار رکھتے ہوئے اپنے شہر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں اور حکومت سیاحوں کا بہت خیال رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید طرز کی عمارتیں اور شاپنگ مالز قائم کیے گئے اور لوگوں‌ کی آمدورفت کے راستوں کی صفائی ستھرائی اور ان کی تعمیر و مرمت فوری کی جاتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں