The news is by your side.

کیا محمد رضوان اور سلمان آغا کی جوڑی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لئے کافی ہے؟

پاکستان کی حالیہ چھ وکٹوں کی فتح، جس میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف 352 رنز کا بڑا ہدف حاصل کیا، بظاہر ایک شاندار کامیابی معلوم ہوتی ہے۔ محمد رضوان کے ناقابل شکست 122* رنز اور سلمان علی آغا کے 134 رنز، جنہوں نے چوتھی وکٹ کے لیے ریکارڈ ساز شراکت قائم کی، یقیناً ناقابل فراموش کارنامے ہیں۔ ان دونوں کھلاڑیوں کے مشترکہ 256 رنز اس کامیابی میں ان کے کلیدی کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔

تاہم، گہرائی سے تجزیہ ایک پیچیدہ کہانی کی عکاسی کرتا ہے، جو پاکستان کرکٹ کو درپیش مستقل چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے اور چیمپئنز ٹرافی 2025 میں جیت کی امیدوں پر ایک سوالیہ نشان ڈال دیتا ہے۔ اگرچہ رضوان اورسلمان علی آغا کی انفرادی شاندار کارکردگی نے میچ میں جان ڈال دی، لیکن بولنگ اٹیک کی کمزوری بدستور ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس فتح کے باوجود، یہ حقیقت کہ جنوبی افریقہ نے 352/5 کا اسکور بنایا، پاکستان کے اہم بولرز کی مخالف ٹیم کو قابو میں رکھنے کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔

شاہین شاہ آفریدی، جنہیں پاکستان کے پیس اٹیک کا مرکزی ستون سمجھا جاتا ہے، نے اپنے 10 اوورز میں 66 رنز دیے، جبکہ نسیم شاہ، جو پیس اٹیک کا ایک اور اہم حصہ ہیں، نے 10 اوورز میں 68 رنز دیے۔ یہ اعدادوشمار ان کے معیار کے بولرز سے متوقع کارکردگی سے بہت دور ہیں، خاص طور پر ایک اہم میچ میں۔ شاہین اور نسیم نے مجموعی طور پر 134 رنز دیے، جو جنوبی افریقہ کے کل رنز کا 42% سے زیادہ ہے، اور یہ کنٹرول اور وکٹ لینے کی صلاحیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی کارکردگی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے کہ وہ دباؤ میں، خاص طور پر بڑے ٹورنامنٹس میں معیاری بیٹنگ لائن اپ کے خلاف کس حد تک پرفارم کر سکتے ہیں۔ مہنگے بولنگ اسپیلز کا مسئلہ صرف سطحی نہیں ہے بلکہ زیادہ گہرا ہے۔ بیٹنگ کی انفرادی کارکردگی پر بولنگ کی خامیوں کو چھپانے کا انحصار ایک خطرناک حکمت عملی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ محمد رضوان نے سری لنکا کے خلاف 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں اسی طرح کی کارکردگی دکھا کر امید کی ایک کرن دکھائی تھی، لیکن ٹورنامنٹ کا نتیجہ اس حکمت عملی کی محدودیت کی ایک واضح یاد دہانی تھا۔ ایک بلے باز، چاہے کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو، پوری ٹیم کا بوجھ مسلسل نہیں اٹھا سکتا۔

اس حالیہ میچ اور اس سابقہ پرفارمنس کے درمیان مماثلتیں پریشان کن ہیں۔ ان خدشات میں مزید اضافہ موجودہ اسکواڈ کی ساخت ہے۔ سلیکشن کمیٹی کا حالیہ فارم میں غیر مستحکم فہیم اشرف کو منتخب کرنا، جبکہ عرفان نیازی اور عامر جمال جیسے مسلسل کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو نظرانداز کرنا، انتخابی معیار اور طویل المدتی منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت اور زیادہ حیران کن لگتا ہے جب قابل اعتماد بولنگ آپشنز کی اشد ضرورت ہو۔ مزید یہ کہ قومی ٹیم میں معیاری اسپنرز کی کمی، جہاں ابرار احمد واحد وکٹ لینے والے آپشن ہیں، ایک اور کمزوری کو اجاگر کرتی ہے۔ جیسا کہ کئی سابق پاکستانی کرکٹرز نے نشاندہی کی ہے، اسپن بولنگ کے موافق حالات میں اسپن ڈیپارٹمنٹ میں تنوع اور تجربے کی کمی ایک بڑا نقصان ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر چیمپئنز ٹرافی 2025 جیسے ٹورنامنٹ میں۔

اس سے پہلے کہ آپ مجھے تنقید برائے تنقید کا طعنہ دیں میں یہ واضح کردوں کہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف فتح کو مجموعی مضبوطی کی علامت نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر حاصل کی گئی کامیابی ہے، جو کہ قابل تعریف ہے، لیکن بڑے بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں کامیابی کا کوئی پائیدار راستہ نہیں دکھاتی۔ اصل امتحان ابھی باقی ہے۔

پاکستان کو اپنی بولنگ کے مسائل کو حل کرنا ہوگا، ٹیم کی ساخت کو متوازن بنانا ہوگا، اور ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جو انفرادی شاندار کارکردگی سے آگے ہو۔ جب تک یہ بنیادی مسائل حل نہیں کیے جاتے، چیمپئنز ٹرافی 2025 میں ایک روزہ ورلڈ کپ 2023 اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2022 کی ناکامیوں کے دہرانے کا امکان موجود رہے گا، جہاں انفرادی کارکردگی کے شاندار لمحے بالآخر اجتماعی ناکامیوں کے سائے میں دب جاتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں