یہ عجیب بات ہے کہ کراچی میں پچھلے دو سال کےدوران ڈکیتی و راہ زنی کی وارداتوں کے ساتھ بچّوں کے اغوا کابھی گویا سلسلہ ہی شروع ہوگیا تھا.میڈیا پر ہر دوسرے روز کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں سے کسی بچے کے لاپتا ہونے کی خبر نشر ہورہی تھی۔پھر کراچی میں ہیوی ٹریفک کی وجہ سے حادثات کی خبریں میڈیا پر شہ سرخی بن کر خوف زدہ کرنے لگیں اور اب یہ معاملہ سنگین ہوچکا ہے۔چند ہفتوں میں متعدد حادثات رونما ہونے کے بعداس پر لسانی رنگ غالب آنے لگا اور ‘سیاست’ شروع ہوگئی. عام لوگوں کی اکثریت ان حادثات کی ایک وجہ ٹریفک پولیس کی اپنے فرائض سے غفلت اور کوتاہی کے ساتھ رشوت خوری بتاتی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ،کراچی ٹریفک کے مسائل اور قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے پہلے بھی حادثات میں اموات دیکھتا رہا ہے، لیکن حالیہ چند ماہ میں ٹرکوں، ڈمپروں اور ٹینکروں کی ٹکر سے شہر کی سڑکوں پر کئی حادثات میں شہریوں کی ہلاکت کے بعد لوگوں میں ہیوی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے لیے غم و غصہ بڑھا ہے.ایسے حادثے کے بعدشہر کے مختلف مقامات پر مشتعل لوگوں کے ہاتھوں ڈمپر وں کو آگ لگانے اور ڈرائیور کو مارنے پیٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئےہیں۔ حال ہی میں مہاجر قومی موومنٹ کے قائد آفاق احمد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ الزام تھا کہ ایک ایسے ہی حادثے کے بعد آفاق احمد نے اپنی ایک تقریر میں شہریوں کو سخت ردعمل پر اکسایا تھا۔
ان حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد جب چینلوں پر خبریں نشر ہونے لگیں اور سوشل میڈیا پر حادثے پر عوام نے سخت ردعمل ظاہر کیا تو حکومتی اراکین اور پولیس افسران کے بیانات بھی سامنے آئے۔ اب خستہ حال اور ان فٹ ڈمپروں، ٹینکروں اور ٹرکوں سمیت خلافِ قانون سڑکوں پر نکلنے والی درجنوں بڑی گاڑیاں ضبط کی جارہی ہیں جب کہ ٹریفک پولیس ایسی انتہائی خستہ حال، خراب اور ان فٹ گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی کارروائی کرنے جارہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ وہ بنیادی کام تھا جس کے لیے حادثے اور اس میںہلاکتوں کا انتظار تو کیا نہیںجانا چاہیے تھا. لیکن کیایہ حقیقی اور سنجیدگی پر مبنی کارروائی ہے یا اب بھی صرف سیاسی دباؤ اور عوامی غم و غصہ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے؟
شہر میں ٹرک، ٹینکر اور دیگر مال بردار بڑی گاڑیاں اکثر سڑک پر قانون کی خلاف ورزی کرتی دکھائی دیتی ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ جگہ جگہ کھڑے ہوئے ٹریفک اہل کار انھیں روک کر ‘معاملہ’ نمٹا دیتے ہیں اور پھر وہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہیوی ٹریفک کے شہر میں داخلے کے لیے ایک نظام کے تحت اوقات مقرر ہیں، لیکن یہ بھاری بھرکم گاڑیاں اس لیے ممنوع اوقات میں بھی شہر کے مختلف علاقوں میں نکل جاتی ہیں کہ یا تو ڈرائیور کے پاس کوئی بڑی پرچی، کسی صاحب جی کا نمبر ہوتا ہے یا پھر جیب میں کرنسی نوٹ. گویا سفارش و تعلقات یا پھر رشوت سے وہ اپنا راستہ بنا لیتے ہیں۔ مگر یہ سب کب تک اسی طرح چلے گا۔
کراچی کے شہری ڈمپر اور ٹینکر کے علاوہ خستہ حال اور کھٹارا بسوں کی آپس میں ریس لگانے کے شوق کی وجہ سے بھی خوف زدہ ہیں. کئی سال پرانی تنگ دروازے والی آہنی بسیں اپنی خستہ حالی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑک پردوڑائی جارہی ہیں. شاید تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے اور ریس لگاکربس ڈرائیوراپنی گاڑی کے کھٹارا ہونے کی محرومی کو کسی حد تک کم کرپاتے ہیں. ڈرائیور کی غیرذمہ داری سے حادثات کے بعد ہجوم نے مشتعل ہوکر بسیں جلائی بھی ہیں۔
لائسنس اور گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ وغیرہ اور دوسرے قانونی تقاضے ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ان ہیوی گاڑیوں کے ڈرائیور نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں اور اسی حالت میں سڑک پر نکلتے ہیں۔ ان میں اکثر کئی کئی گھنٹے ڈرائیونگ کرتے ہیں اور بے حد تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ انھیں اکثر جھگڑالو بھی پایا گیا ہے اور یہ ڈرائیور تیز رفتار یا غیر ذمہ داری سے گاڑی چلاتے ہیں۔ یہ سب بھی شاید حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان ڈرائیوروں کی ذہنی اور نفسیاتی حالت کی جانچ کے علاوہ ان کی تربیت بھی کی جانی چاہیے اور اس میں ٹریفک سے متعلق مختلف محکمے یا ادارے اور ٹرانسپورٹ تنظیموں کے بڑوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت کے اقدامات اور ٹریفک پولیس کی کارروائیوں کا کیا نتیجہ نکلے گا، یہ الگ بات ہے مگر ہم یہاں ایک اور زاویے سے اس مسئلے کو دیکھتے ہیں۔
ہم ٹریفک قوانین کے نفاذ، گاڑی چلانے کے لیے ڈرائیوروں کی تربیت اوراس حوالے سے مختلف مراحل یا ان کی مہارت وغیرہ کو چھوڑکر غور کریں تو ایک بات یہ بھی ہے کہ بطور انسان ہماری کچھ انفرادی، خاندانی، معاشرتی ذمہ داریاں ہیں۔ ان میں سے کئی ذمہ داریاں ایسی ہیںجن کو کوئی ناخواندہ شخص بھی ایک خاص عمر ہی سے سمجھنے لگتا ہے اور کئی ایسی ہیں جن کا علم کسی ذریعے سے ہوتا ہے یا انھیں سیکھا جاتا ہےاور اس کی تربیت لی جاسکتی ہے۔
دراصل کسی انسان کا امتیازی وصف ‘ذمہ داری’ ہوتا ہے جو گھر اور کنبے کی ضروریات کا خیال رکھنے سے شروع ہو کر عملی زندگی میں احساس کی شکل میں پروان چڑھتا ہے. ایک ذمہ دار انسان اپنی ذات سے کسی کو موقع پڑنے پر نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ لمحوں میں کرلیتا ہے۔ اگر وہ احساس کا حامل اور ہر لحاظ سے ذمہ دار شخص ہے تو یقیناً کسی کو ضرر اور تکلیف نہیں دیتا. اسے ہم اس شخص میں اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی کہہ سکتے ہیں۔ ناخواندہ اور مخصوص ماحول کے پروردہ افراد کو ہمیں کچھ قاعدے، آداب اور طور طریقے سکھانا پڑتےہیں لیکن ایک پڑھا لکھا اور معاشرت کاادراک رکھنے والا بہت حد تک اصول، طریقے جانتا بھی ہے اور اسی لیے بڑی حد تک ذمہ دار بھی ہوتا ہے. ایسا کوئی بھی فرد دوسروں کی مدد اور ان سےتعاون کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ الغرض، بنیادی طور پر کسی نہ کسی درجے میں ہر شخص ذمہ داراور احساس کرنے والا بہرحال ہوتا ہے۔ البتہ ہر آدمی میں احساس کی یہ سطح مختلف ہوسکتی ہے، اور وہ اپنے تصورات اور حالات کے مطابق ہی اس کا اظہار کسی بھی موقع پر کرتا ہے۔ یہ کام وہ اپنی عقل اور سوجھ بوجھ سے خود بھی کرلیتا ہے،مگر بعض صورتوں میںاسے تربیت، سکھانے سمجھانے اور آگاہی دینے کی ضرورت پڑتی ہے.
ہم میں سے اکثر لوگوں کو اپنے کنبے کی ذمہ داری کاادراک تو ہوتا ہے لیکن وہ ایک سطح پر اس بے حسی کا شکار بھی ہوتے ہیں کہ انھیں اپنی ذات اور خواہش کے آگے کچھ نہیںدکھائی دیتا. وہ اپنے معاشرے کے دوسرے لوگوں کے حوالےسے اپنی اخلاقی ذمہ داری کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی طبیعت میں غصہ، ہیجان انگیزی اور بے حسی پائی جاتی ہےیا کسی سبب وہ دوسروں کی تکلیف اور پریشانی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں. دوسری طرف وہ لوگ ہوتے ہیںجن میں احساس کی رمق وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتی ہے. انھیں اس جانب متوجہ کرنا پڑتا ہے. ذمہ داری اور اس سے جڑے ہوئے اوصاف کو ذرا سی توجہ اور تربیت سے زندہ یا اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ دراصل ہر فرد کو عمر کے ساتھ اس کے حالات اور اس کا ماحول ایک خاص انداز میں ڈھال دیتا ہے. وہ چاہے دیہات میں رہے، چھوٹے قصبے میں یا کسی بڑے اور ترقی یافتہ شہر میں بستا ہو، اپنی اسی روش پر قائم رہتا ہے اور بسا اوقات دوسروں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے یا ان کے لیے انجانے میں بڑے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر اس کی شخصیت کی ان کمزوریوں کو دور کرنے میں کوئی بڑی اور پیچیدہ رکاوٹ حائل نہ ہوتو اس کی ذہن سازی اور تربیت مشکل نہیں ہے۔ عام طور پر ہر ایک جانتا ہے کہ اس کی سڑک پر کوئی ذمہ داری ہے، اور اگر وہ اسے نہیں پورا کرے گا تو اپنا یا دوسرے کا نقصان کرسکتا ہے، لیکن وہ اس میں انصاف نہیں کر پاتا۔اس لیے بات کرنے سے اور احساس دلانے سے بھی تبدیلی کا امکان ہے.
کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور اسٹریٹ کرائمز کے بعد اب بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے بعد اگر ہم غور کریں تو یکے بعد دیگرے حادثات کے نتیجے میں اموات کے بعد اب تک ہنگامی بنیادوں پر حکومت اور متعلقہ محکمہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکے ہیں جس سے شہریوں کی تسلی ہوتی۔ ایک اندازے کے مطابق اوسطا یومیہ بنیاد پر کراچی میں 30 سے زائد حادثات ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حادثہ کی وجہ صرف ان گاڑیوں کے روٹ پرمٹ، فٹنس سرٹیفکیٹ، ڈرائیور کا لائسنس نہ ہونا ہی نہیں بلکہ ذمہ داری کا ادراک اور احساس نہ ہونا، شعور اور اخلاقی سطح پر وہ بیداری جو کسی بھی معاشرے میں امن و سکون اور ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، اس کا فقدان بھی ہے۔ قانونی تقاضوں کی تکمیل اور ٹریفک اصولوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ ڈرائیوروں سے بات کرنا ضروری ہے. انھیں احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی ایک معمولی غلطی، کوتاہی اور عجلت کی عادت کسی ایک فرد کی نہیںبلکہ ایک کنبے کی زندگی برباد کرسکتی ہے. اس لیے نہ صرف اپنی بلکہ سڑک پر اپنی ہی طرح روزی روزگار کی خاطر اپنے والدین، بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکلنے والے ہر فرد کی زندگی کو اہمیت دیں اور اس کی حفاظت کریں. میرا خیال ہے کہ جس سینے میں دل ہے وہ یقیناً تڑپ اٹھے گا اور اگر ضمیرجیسی کوئی شے ہوتی ہے، تو وہ ضرور سوچنےپر مجبور ہوجائے گا.
سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔