“جب ہماری کشتیاں ساحل پر کھڑی رہتی ہیں، تو ہمارے چولھے بجھ جاتے ہیں۔” لطیفہ ناصر کہتی ہیں۔ “میرے بچے ایک مہینے سے اسکول نہیں گئے، اور ہم اب قرضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔”
لطیفہ ناصر اورمارہ کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں ( اور ماہی گیر برادری سے تعلق کی بنا پر مستفید ہونے والوں میں بھی شامل ہیں) یہ سوسائٹی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ لطیفہ ناصر کا خاندان بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر اورمارہ میں رہتا ہے۔ ان کے شوہر ماہی گیر ہیں، اور علاقے کے بیشتر ماہی گیروں کی طرح ان کا بھی روزگار ایران ،اسرائیل جنگ کے باعث بحران کا شکار ہے۔
جنوب مغربی پاکستان میں مچھلی اور ایندھن کی ایک اہم تجارت ایران کے ساتھ بند سرحدوں کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
ایران، اسرائیل تنازع کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، جس سے ایندھن کی فراہمی اور مچھلی کی برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ یہ دہرا جھٹکا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی اور حد سے زیادہ شکار سے متاثر ماہی گیر برادریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔
بحیرۂ عرب کے کنارے، بلوچستان کا 770 کلومیٹر طویل ساحل ملکی ماہی گیری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بلوچستان فشریز اور کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار علاﺅالدین ککر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ” صوبے کے ماہی گیر ہر سال تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار ٹن مچھلی پکڑتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 19.9 ارب روپے (70.1 ملین ڈالر) ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بہت سی قیمتی انواع جیسے ٹونا، اسپینش میکریل، کراکر، انڈین آئل سارڈین اور انڈین میکریل شامل ہیں۔ بلوچستان میں 16,000 رجسٹرڈ اور 6,000 غیر رجسٹرڈ کشتیاں مچھلی کے شکار میں مصروف ہیں، جو ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش ہیں۔“
علاﺅالدین ککر کے مطابق ”اس گراں قدر معاشی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ بدانتظامی، فنڈنگ کی کمی اور بیرونی جھٹکوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ “
گوادر چیمبر آف کامرس کے چیئرمین شمس الحق کلمتی کے مطابق ”ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی جنگ سے اس شعبے کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے ماہی گیر اپنی کشتیاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سے چلاتے تھے جو غیر قانونی طور پر مگر آسانی سے دستیاب تھا۔ اب سرحدوں کی بندش کے باعث یہ سپلائی چین منہدم ہو گئی ہے۔ اب یہ ایرانی ایندھن یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر خاصا مہنگا ہوچکا ہے مثلا فی لیٹر ایندھن کی قیمت 150 (USD 0.53) روپے سے بڑھ کر 180-200 (USD 0.63-0.70) روپے ہو چکی ہے۔“
مقامی ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں ایرانی ایندھن کی روزانہ درآمد 6 لاکھ بیرل سے گھٹ کر 1 لاکھ 40 ہزار بیرل رہ گئی ہے۔ سرحد بند ہونے سے پہلے گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں 300 سے زائد بڑے آئل ڈپو، 1000 پمپس اور 2000 دکانیں تقریباً مکمل طور پر ایرانی ایندھن فروخت کرتی تھیں، جبکہ پاکستانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس صرف دو تھے۔
تاہم گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمن کہتے ہیں کہ “صور ت حال اب معمول پر آ چکی ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔”
ماہی گیری صنعت پر اثرات
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سمندری امور کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے “یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ ماحولیاتی بھی ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اچانک ٹونا جیسی بڑی مچھلیوں کے شکار کا رک جانا سمندری ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔
معظم خان کے مطابق موجودہ جغرافیائی کشیدگی نے پاکستان کی ساحلی اور گہرے سمندر کی ماہی گیری کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر ٹونا مچھلی کی انواع کو، ہر سال پاکستانی ماہی گیر تقریباً 50 سے 60 ٹن ٹونا اور اس جیسی مچھلیاں پکڑتے ہیں، جن کی زیادہ تر مقدار براہِ راست ایران کو فروخت کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ برآمد غیر قانونی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایندھن کی اسمگلنگ جو اس کے برعکس سمت میں ہوتی ہے، لیکن سرحد پار ان مچھلیوں کے اچھے دام ملتے ہیں۔
معظم خان کے مطابق بلوچستان کی ٹونا مچھلی عموماً بین الاقوامی منڈیوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی، اس لیے ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسے اچھے داموں خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایران میں ٹونا کی فی کلو قیمت 300 سے 700 روپے (1.06 سے 2.47 امریکی ڈالر) تک ہے، اور اس برآمدی تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 1.5 کروڑ سے 3.5 کروڑ روپے (52,900 سے 123,300 امریکی ڈالر) کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
معظم خان کہتے ہیں: ”اگر ایرانی مارکیٹ تک رسائی نہ رہی تو پورا ٹونا فشریز سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، جو ان متاثرہ برادریوں کی آمدنی اور روزگار دونوں کے لیے خطرہ بن جائے گا۔“
طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سی ای او ہیں، جو صوبے کے دیہی غریب اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ معظم صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”بلوچستان سے زیادہ تر ٹونا اور دیگر تجارتی مچھلیاں ایران کو بارٹر سسٹم کے تحت بھیجی جاتی ہیں، جہاں ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلی، بشمول ٹونا، کے بدلے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔“
یہ بارٹر تجارت عام طور پر ایرانی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یہ کشتیاں پاکستانی ماہی گیروں سے مچھلی لینے کے لیے دونوں ممالک کی سمندری سرحد کے قریب اور بلوچستان کے مختلف مقامات جیسے گوادر اور جیوانی تک جاتی ہیں۔
غریب ماہی گیر، اب غریب تر!
ٹونا مچھلی کی فروخت کے علاوہ، اس خطے میں پکڑی جانے والی کچھ مچھلیوں کے مختلف حصے (سوئم بلیڈرز) مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں میں قیمتی خوراک سمجھے جاتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین اور سمندر دونوں کے ذریعے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً ہزاروں کلوگرام قیمتی تازہ مچھلی فروخت نہیں ہو پا رہی۔
گوادر کے ماہی گیر نا خدا داد کریم کے مطابق، مقامی منڈی اتنی مضبوط نہیں کہ اضافی مال خرید سکے اور خاص طور پر دور دراز ساحلی قصبوں میں کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں بھی نہایت محدود ہیں۔
مچھلی کو برآمد کے لیے محفوظ کرنے کے طریقوں جیسے کیننگ یا فریزنگ کی کمی یا کہیں کہیں عدم موجودگی کے باعث یہ بحران بلوچستان کی معیشت کے مختلف شعبوں تک پھیل رہا ہے۔
کلمتی کا کہنا ہے ”باقاعدہ تجارتی راستوں اور مچھلی محفوظ کرنے کے مناسب انتظامات کے بغیر پوری سپلائی چین تباہ ہو رہی ہے۔ برف بنانے والی فیکٹریاں، مچھلی لے جانے والے، پروسیسنگ فیکٹریوں کے مالکان اور کشتیوں کے مکینک ، سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ماہی گیری کا بحران نہیں بلکہ ایک مکمل اقتصادی ایمرجنسی ہے۔”
اس تمام صورت حال نے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی کی قیمتیں مزید گرا دی ہیں۔
کریم کہتے ہیں ”میں چالیس سال سے سمندر میں جا رہا ہوں، لیکن کبھی اتنے خراب حالات نہیں دیکھے۔ پہلے ہم ایک سفر پر تقریباً 15,000 روپے (53 ڈالر) خرچ کرتے تھے اور اتنی مچھلی پکڑ لاتے کہ تھوڑا بہت منافع ہو جاتا۔ اب تو صرف ایندھن کا خرچ 30,000 روپے (106 ڈالر) سے تجاوز کر گیا ہے، اور ہم اب اپنی پکڑی ہوئی مچھلی بھی اچھی قیمت پر نہیں بیچ سکتے۔ ہر سمندری سفر میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہوں۔”
ناخداداد کریم جیسے بہت سے ماہی گیر اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، جو ان ہی کی کشتی پر ان کے ساتھ ماہی گیری میں ہاتھ بٹاتا تھا، اب تعمیراتی کام میں مزدوری کا سوچ رہا ہے کیونکہ وہاں مواقع نسبتاً بہتر ہیں۔
جمایت جانگیر بلوچ گوادر کے ایک ماہی گیر اور ”مول ہولڈر“ ہیں، یعنی وہ سرکاری طور پر تصدیق شدہ مچھلی کے تاجر ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ”ہم میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں جانا چھوڑ دیا ہے، نقصان اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہم اسپینش میکریل، باراکوڈا، بڑی کراکر مچھلیاں اور ٹونا ایرانی خریداروں کو بیچتے تھے۔ وہ ہمیں نقد اچھے دام دیتے تھے۔ اب کوئی خریدنے والا ہی نہیں، اور مقامی تاجر بھی آدھی قیمت لگا رہے ہیں۔“
خشکی پر خواتین کے دکھ!
اگرچہ سمندر میں جا کر مچھلی پکڑنے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں، لیکن اس بحران سے خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
گوادر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بلوچ کہتی ہیں”یہاں خواتین مچھلی نہیں پکڑتیں، لیکن ہم مچھلیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں، انہیں سکھا کر بیچتے ہیں۔ اب جب کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے تو ہماری مزدوری بھی ختم ہو گئی ہے۔“
ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مچھلی کی برآمدی منڈی کے ختم ہو جانے سے بہت سی کشتیاں سمندر میں جانا بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی برادریاں سستی مچھلی سے بھی محروم ہو گئی ہیں جس پر ان کا روزگار اور خوراک دونوں کا انحصار تھا۔
پاکستان فشر فوک فورم کے طالب کچھی، جو ماہی گیر برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن ہیں، ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ یہ برادریاں صرف پیسے ہی نہیں بلکہ اپنی خوراک کا ذریعہ بھی کھو رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ”جو خواتین آزادانہ طور پر مچھلی فروخت کرکے کچھ پیسے کماتیں اور اپنے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کرلیتی تھیں ، وہ اب پریشان ہیں ، اب وہ سستی ترین مچھلیاں جیسے سارڈین اور انڈین میکریل خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوراک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔”
فشر فوک کوآپریٹو سوسائٹی گوادر کے جنرل سیکریٹری سمیع گل کا کہنا ہے،”مچھلی پروسیسنگ کرنے والی خواتین کی اجرتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، اور چھوٹے دکان داروں کو فروخت کے لیے سستی مچھلی نہیں مل رہی۔“
وہ مزید کہتے ہیں ”غریب لوگ مرغی یا گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا اگر یہی صورت حال جاری رہی تو یہ ایک سنگین غذائی قلت اور غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔“
گوادر چیمبر آف کامرس کے کلمتی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری مداخلت کریں، ماہی گیروں کے لیے ایندھن پر زر تلافی کا اعلان کریں اور سرحد کو کھول کر باقاعدہ ضابطے کے تحت تجارت بحال کریں۔
سرکاری عہدیدار علاﺅالدین ککر بھی اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے 38 کروڑ روپے (1.34 ملین امریکی ڈالر) کے اعانتی فنڈ کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد ماہی گیری شعبے میں ایمرجنسی بنیادوں پر مہنگے ایندھن کے لیے زر تلافی، فلاحی اسکیمیں اور متاثرہ ماہی گیروں کے لیے معاوضے کی ادائیگی ہے۔
بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے طاہر رشید کہتے ہیں کہ اگر صوبے میں کولڈ اسٹوریج، کیننگ اور دیگر جدید بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو ماہی گیری کی صنعت کو ایک منافع بخش برآمدی شعبے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے بارٹر سسٹم پر انحصار کم ہوگا اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں ”ہمیں فوری طور پر اقدام کرنا ہوگا۔“
بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت، جو کبھی ساحلی معیشت کا ستون تھی، اب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات صوبے کی سرحدوں سے کہیں آگے تک محسوس ہوں گے۔
(شبینہ فراز اور عبدالرحیم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)