بحیثت اسلامی اورنظریاتی قوم ہم جذبات کی تمام حدوں کو عبور کر چکے ہیں دشمن کے خلاف بلند و بانگ دعوئے کرنا جمہوریت کے دعویدار بننا، انسانیت کا لبادہ اوڑھ کرحیوانیت کی حدوں کو عبور کرنا یہ سب خوبیاں ہم میں کوٹ کوٹ کربھر دی گئی ہیں جس کے سبب ہمارے اندرکی انسانیت نہ صرف مرچکی ہے بلکہ اسکا ڈھانچہ بھی گل سڑھ چکا ہے عدم برداشت اور مایوسی کا تو حال ہی نہ پوچھیں لیکن اس کے سدھار کے لئے کوئی بھی اپناکردارادا کرنے کے لئے تیار نہیں حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان جنہیں مہذب معاشرے میں انسانیت اور نظم و ضبط کا پیکر سمجھا جاتا ہے وہ اپنےہی سیاسی جلسوں میں کھانا دیکھ کر بری طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اورایسی ہی کچھ حال مذہبی جماعتوں کا بھی ہے۔
ہم بلند و بانگ دعوے کرنےاور اپنے آپ کو مہذب معاشرہ دکھانے کے چکر میں معاشرے کے سدھار پر بالکل وقت نہیں دے پارہےیہی وجہہے کہ بگاڑ اتنا ہوگیا ہے کہ ایک مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو دوسری طرف ہمارےنام نہادسیاسی قائدین اس معاشرے کو امریکہ ، برطانیہ جبکہ مذہبی جماعتیں مکہ او ر مدینہ جیسے معاشرے کا نام دیتے ہیں لیکن یہ بھی صرف دعوے کی حد تک ہے عملاً کوئی بھی شخص اپنا کردارادا کرنے کوتیار نہیں جبکہ دوسری طرف میانہ سوچ رکھنے والوں کو بلاجھجھک متفقہ طور پرکافر کا لقب دے کر یہ سبق دیا جاتا ہے کہ ایسا شخص ہماری ریاست کے لئے ناسور ہے۔
پاکستانی معاشرے کے عدم براداشت کے واقعات کسی سے کوئی ڈھکے چھپے نہیں پوری ہی دنیا میں ان انہونے واقعات کو بڑی پذیرائیملتی ہے جن سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے ہم لاکھ کوششیں کرکے دنیا میں اپنا سافٹ امیج کا تاثر دینے کی کوشش کریں ہماری بیمار ذہنیت ہماریقومی سوچ کی عکاسی کرتی ہے پھر لاکھ آپ مہنگے کپڑے پہنیں ، اچھی انگریزی بولیں یا اقوام متحدہ میں خطاب کریں آپکی پہچان اورتاثر وہی بن جاتا ہے۔
ایسا تاثر کیوں نہ پھیلے کہ جب ایک ماں گھر میں کھانے نہ ہونے کے باعث بچوں کو موت کی آغوش میں اتار کر خود بھی موت کو گلے لگا لیتی
ہے، ایک پڑھا لکھا پاکستانی بے روزگار ہونے کی وجہ سے خودکشی کرلینا، بہنوں کی شادی جہیزنہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہونا، نوکری بچانے کے چکر میں رات دیر سے ایک باپ آفس سے گھر واپس لوٹنا، نرسوں پرلاٹھیاں برسانا، قوم کی تعمیر کرنے والے استاتذہ کو اپنے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پرسڑکوں پرظلم کا نشانہ بنایا جانا، انصاف فراہم کرنے والوں کا خود اپنے لئے انصاف کا متلاشی ہونا، معصوم بچیوں سے زیادتی کرنے والے معمولی رقم کی ضمانت پررہا کر دئیے جانا، بنتِ حوا کوغیرت کے نام پر قتل کرنا، پولیس کی زیادتیاں، مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا جانا، ایک نوجوان کا وی آئی پی موومنٹ کی بھینٹ چڑھ جانا اور سب سے بڑھ کر ایک نامعلوم صدرِ مملکت کے چکر میں معذور افراد کو ان کے عالمی دن پر بے دردی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانا پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
ان سب عوامل کے ردِعمل میں وہی مذمتی بیان، کمیٹیوں کی تشکیل کی یقین دہانی، رپورٹ کی طلبی، معطلی کی خبریں وغیرہ وغیرہ یہ سب معاشرے میں تعمیر نہیں
بگاڑ کا کام کرتے ہیں اور یہی بگاڑ آج اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک نوجوان اپنے ماں باپ کو جائیداد کے تنازعے میں مار دیتا ہے ۔
ہم بھی یہ خبریں صرف خبروں کی حد تک ہی دیکھتے ہیں لیکن ان معاملات کا حل ہم نے کبھی سوچا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ سوچ عام پاکستانی کے ذہن میں
بہت تیزی سے سرایت کررہی ہے جسے روکنے کی فوری ضرورت ہے ہرشخص اورہرادارے کو اپنا کام انصاف کے ساتھ کرنا ہوگا مکمل حقوق دینے ہونگے، انصاف کی فراہمی، ضروریاتِ زندگی، قانون کی بالادستی، روزگار، تعلیم، میڈیکل وغیرہ کی سہولیات ایک عام شہری تک پہنچانی ہونگی اور ساتھ ہی ہر اچھی بری چیز سے آگاہی دینی ہوگی اور ان سب سے پہلے ہمیں خود ایک اچھا انسان بننا ہوگا تاکہ اچھے معاشرے کی تعمیر ہوسکے اور ہماری آنے والی نسلیں اس ملک اور اپنی شناخت پر فخر کر سکیں۔
آخرمیں تعاون کی درخواست ہے کہ معاشرہ زیر تعمیر ہے ۔ ۔ انسانیت سے دل کھول کرتعاون کی درخواست ہے، شکریہ۔