The news is by your side.

پاکستانیت کا بجھتا چراغ جلانے کا واحد راستہ

تمام حمد اس خدائے بزرگ و برترکی کہ جس نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نوازا اورساتھ ہی ساتھ ہمیں اتنی ہمت
بھی دی کہ ہم اس وطنِ عزیزپرمسلط ہونے والے نااہل اورنکمے حکمرانوں کو برداشت کرسکیں۔ ہمارے حکمران صرف نا اہل اورنکمے ہی نہیں بلکہ احساس اورشعورسے عاری بھی ہیں۔ انہوں نے ناصرف یہ کہ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں کبھی عوامی مفاد میں فیصلے نہیں کیے بلکہ آج جب ملک اپنی تاریخ کے سب سے سنسنی خیزموڑسے گزررہا ہے ہمارا حکمران ٹولہ اپنی دھن میں مگن ہے۔

گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے اورسینکڑوں بچے لقمۂ عمل بن چکے ہیں رواں سال جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 78 ہوچکی ہے۔ گزشتہ سال کے آخری ماہ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے اندوہناک انسانی سانحہ ہوا جس میں لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی جامِ شہادت نوش کرگئے۔ رواں ماہ ملک تاریخ نے اب تک کے بدترین پٹرول بحران کو اپنے دامن پر نقش کیا ہےاور گزشتہ ہفتے پورے ملک میں کئی گھنٹے طویل بجلی کے بریک ڈاؤن نے ملک کے الیکٹرک ٹرانسمیشن سسٹم پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔

ایک جانب تو یہ مسائل ہیں دوسری جانب ملک میں آپریشن ضربِ عضب بھی جاری ہے جس میں ملک دشمن عناصرکا صفایا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاری ہے لیکن حکمران اس معاملےمیں بھی سنجیدہ نظرنہیں آتے۔ سانحہ پشاور کو آج پورے چالیس دن گزر گئے لیکن ابھی تک نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کوئی خاطرخواہ کارنامہ انجام نہیں دے پائی، آٹھ ہزار سے زائد مجرم سزائے موت کے منتظرہیں لیکن صرف بیس کو پھانسی دی جاسکی ہے۔ ملٹری کورٹس آئین میں ترمیم کرکے قائم کیے گئے لیکن ابھی تک ایک بھی مقدمہ سماعت کے لئے نہیں آیا۔

کراچی پاکستان کی معاشی شاہ رگ گزشتہ کئی سال سے بد امنی کا شکارہے تقریباً ڈیڑھ سال سے آپریشن جاری ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ روز نجانے کتنے دہشت گرد گرفتار کیے جاتے ہیں لیکن شاید گرفتار ہونے والوں سے زیادہ زمین سے اگتے اور آسمان سے برستے ہیں کہ اس شہر میں امن ہی نہیں ہوتا۔

یہ سب تو تھی داخلی صورتحال اب ذرا اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں اور اپنے عالمی محلے پرایک نظرڈالتےہیں۔ ہمارے ایک جانب ایک انتہائی طاقت ور ملک چین ہے جس سے ہمارے تعلقات قدرے بہترہیں دوسری جانب افغانستان ہے جو کہ سویت یونین، طالبان اور اسکے بعد امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی آمد جیسی مشکلات جھیل کر اب ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کررہاہے۔ ہماری ایک سرحد ایران کے ساتھ ہے جو کہ عالمی دنیا میں تنہا لیکن خود اعتمادی کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مشغول ہے اورسب سے آخرمیں ہمارا دیرینہ حریف یعنی بھارت، ہم اور ہنندوستان ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن آج ہم بھارت سے عالمی ریس میں بہت پیچھے ہیں جس کی تازہ مثال امریکی صدر کاحالیہ دورہ بھارت ہے جس میں ایک جانب تو بھارت سے تجارت بڑھانے کی بات ہورہی ہے تو دوسری طرف سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کے لئے حمایت کے اعلان کیے جارہے ہیں۔

اب سب سے آخر میں سب سے اہم معاملے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ پیرس میں مقامی جریدے کے دفتر پرحملہ ہوا اور 12افراد ماردیے گئے معاملہ تھا گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت کا، پھر اسکےبعد کیا ہوا! فرانسیسی صدر کی قیادت میں 40لاکھ افراد پیرس کی سڑکوں پرتھے اور کئی اہم ممالک کے رہنماء جن میں اسرائیلی وزیرِ اعظم اور فلسطینی صدر بھی شام ہیں احتجاج میں شامل ہوئے اورحملے میں مارے جانے والے 12افراد سے اظہارِیکجہتی کیا۔ اس سے ہوا کیا کہ فرانسیسی جریدے کو تقویت ملی اور انہوں نے گستاخاکانہ خاکے پھر چھاپ دیے۔

یہاں سے شروع ہوتا ہے ہمارااصل مسئلہ، فرانس جس کی آبادی تقریباً چھ کروڑ تریسٹھ لاکھ ہے وہاں تو اپنے لوگوں کی حمایت میں چالیس لاکھ افراد سڑکوں پر آگئے کہ ریاست کاسربراہ خود ان کے ساتھ سڑک پرتھا لیکن 20 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرنے والے درحقیقت ایک لاکھ افراد بھی سڑکوں پرنہ لاسکے جس کی وجہ واضح ہے کہ اگر اسی ملین مارچ کا اعلان حکومت کی جانب سے کیا جاتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ شاید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو ہمارے حکمرانوں نے قومی مسائل پرکبھی بھی سڑکوں پر آنے کی عادت ڈالی ہی نہیں اور وہ ڈالتے بھی کیوں کہ ان کے خود اپنے کرتوت ایسے ہیں کہ اگرعوام کو حق بات پرلبیک کہنے کی عادت ہوتی تو کوئی حکمران کبھی عوامی امنگوں کے خلاف فیصلے کرنے کی جرات نہیں کرتا۔

پاکستان کے سارے مسائل کا محور ایک ہی ہے یہاں فیصلے عوامی امنگوں کے بجائے ذاتی پسندناپسند اور مفادات
کوسامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں اورہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ آج گلوبل ولیج میں رہتے ہوئے ہمیں دنیا بھرکے مسائل کی گھتیاں سلجھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہم نے اپنے حالات پر کبھی غورہی نہیں کیا کہ سیاست کے نام پر گزشتہ 67سال سے ہمارے ساتھ کونساکھیل کھیلاجارہاہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے پالیسی ساز ادارے اورتھنک ٹینک ملک کو مجودہ سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی
بحران سے نکالنے کےلئے کیا حل سوچ رہے ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ ہے بھی کہ
نہیں جو ایسا کچھ سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو، میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ قوم موجودہ حکومت سے ہی اپنے مطالبات منوانا شروع کرے اورسب سے پہلے دو مطالبات منوائے ایک دہشت گردی کا خاتمہ دو توانائی بحران ختم کیا جائے تاکہ ملک میں جو جمود طاری ہوگیا ہے وہ ختم ہو معیشت کا پہیا چلے اور پاکستان عالمی دنیا سے تجارت شروع کرے۔

یقین کیجئے تیسری عالمی جنگ ہوگی نہیں بلکہ ہورہی ہے اوریہ ہتھیاروں کی نہیں معیشت کی جنگ ہے جس ملک کی جتنی بڑی معیشت ہے وہ اتنا ہی زیادہ طاقتور ہے اورہمارئی معیشت کا تو خیر سب کو علم ہے کہ گزشتہ کئی سال سے چندے اورامداد پرچل رہی ہے۔ ہم کیا بناتے ہیں جو بیچیں گے عالمی دنیا میں ہمارا حصہ ہی کیا ہے؟ لیکن اگرہم عالمی مارکیٹ کی ضرورت ہوں گے تو ہم اپنے مطالبات منوانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلیں گے چاہے وہ مسئلہ کشمیرہو یا گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت جیسا مکروہ جرم روکنے کا معاملہ ہو۔ آج کی تاریخ میں عالمی دنیا سے مطالبات کے لئے عوامی طاقت کا اظہار صرف اورصرف توانائیوں کا ضیاع ہے، اے کا ش کہ یہ تحریر کسی ’شریف‘شخص تک پہنچے اوروہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے میں واقعی دلچسی لینا شروع کردے ورنہ یہ بات قوم سن لے کہ وقت بہت بے رحم ہے یہ کسی بھی قوم کو تاریخ کا حصہ بنانے میں دیرنہیں لگاتا اور’ایشیا کے مردِ بیمار‘کی حیثیت سے ہمارے پاس اپنی اصلاح کے لئے وقت بہت کم ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں