رواں سال کے پہلے مہینے میں قصور شہر کے ایک کوڑے کے ڈھیر سے ننھی زینب کی لاش برآمد ہوئی۔ سوشل میڈیا پر اس کی تصویر اور ظلم کی داستان وائرل ہونے سے حکومت اور پولیس پر بے پناہ دباؤ آیا اور جلد ہی عمران نامی مجرم کو دھرلیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل ہوا اور شاید یہ پاکستان کا واحد جرم ہے، جو جنوری میں سرزد ہوا اور اکتوبر میں مجرم تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے سے اغوا کیا گیا تھا، جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مل گئی، جس میں ایک شخص زینب کو لے جاتے ہوئے دیکھا گیا، اندازہ لگایا گیا کہ یہ کوئی جاننے والا ہے، جبھی زینب اتنے اطمینان کے ساتھ اس کے ساتھ جا رہی ہے۔
زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، جو چالان جمع ہونے کے سات روز میں مکمل کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ تقریباً 10 گھنٹے سماعت ہوئی اور اس دوران 25 گواہوں نے شہادتیں رِکارڈ کروائیں۔
17 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔ عدالتی فیصلے پر زینب کے والد امین انصاری نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس مطالبے کو دُہرایا کہ قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔ عمران نے زینب سمیت 7 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا، جس پر مجرم کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا اور یوں آج صبح اسے تختۃ دار پر چڑھا دیا گیا۔
کیس میں کچھ نکتے ایسے ہیں جنھیں اس تیز ترین ٹرائل میں شاید دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، اگر ان نکات پر کام نہیں ہوا تو شاید یہ پھانسی مکمل نشانِ عبرت ثابت نہ ہو۔
کچھ سوال جو تختہ دار پر جھول گئے:
مجرم اہل خانہ کے ساتھ مل کر زینب کو تلاش کرنے والوں میں شامل تھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تو پولیس اگر نہیں بھی پہچان پائی تھی، تو گھر والوں اور اہلِ محلہ نے کیوں شناخت نہیں کیا۔ تصویر دھندلی ضرور ہے لیکن قابلِ شناخت تو ہے؟
ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ اجتماعی زیادتی تھی، تاہم بعد میں صرف ایک شخص کو مجرم تسلیم کر کے اسے سزا دے دی گئی۔ آیا پہلی رپورٹ غلط تھی یا بعد کی رپورٹوں کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے؟
زینب کے والد نے عدالت سے سیکیورٹی کا مطالبہ کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ در پیش ہے۔ کیا کسی نے جاننے کی کوشش کی یہ خطرہ کس سے درپیش تھا؟
اس سارے تنازِع میں ایک دم ڈارک ویب کا غلغلہ اٹھا او ر شاید ہزاروں پاکستانیوں نے ‘ٹور’ تک رسائی حاصل کی۔ اس واقعے کے بعد ڈارک ویب سے متعلق کئی کہانیاں بھی منظرِ عام پر آئیں اور سب کی سب وقت کی دھند میں دب گئیں؟
پولیس اور عدالت نے ساتھ بچیوں کے اس قاتل کے کسی سہولت کار کو تختہ دار تک پہنچانے کی زحمت نہیں کی، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ایک ہی محلے میں رہتے ہوئے، جس کے پاس ذاتی جائے واردات تک نہ ہو، معصوم بچیوں کو اسی طرح نشانہ بناتا رہے اور کوئی اس کا شریکِ جرم نہ ہو؟
مجرم عمران علی کا بیان ہے کہ اس نے کچرے کے ڈھیر پر زینب سمیت تین لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پھر لاش وہیں پھینک دی۔ دو روز تک جب کہ پورا محلہ زینب کو تلاش کر رہا تھا، کسی کوڑا چننے والے کو، صفائی والے کو، کوڑا پھینکنے والے کو وہ لاش کیوں دکھائی نہیں دی؟
میڈیا اور عدالت سب نے زینب کے والد سے پوچھا کہ کیا آپ تحقیقات اور ملزم کی سزا سے مطمئن ہیں، اس سارے منظر نامے میں کسی بھی سنسنی خیزی کے شوقین صحافی نے باقی کی بچیوں کے گھروں کا رُخ کیوں نہیں کیا؟
احتجاج پر ہونے والی فائرنگ میں دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے، اس واقعے پر اب تک کیا پیش رفت کی گئی ہے؟
کیا حکومت نے اس سارے معاملے پر اٹھنے والے ڈارک ویب کے معاملے کو سنگینی سے دیکھنے کی کوشش کی یا وہ سب ایک افسانہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا؟ اگر ایسا کیا گیا ہے تو آپ شتر مرغ ہیں جو ریت کے طوفان کو دیکھ کر مٹی میں سر دبا رہا ہے، کہ ڈارک ویب آج کی دنیا کی بھیانک ترین حقیقت ہے۔
اگر معاشرے کے حساس اور درد مند دماغوں نے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، تو یقین کریں کل یہ سوال کسی اور شہر کے کسی اور محلے کی زینب کے ساتھ جڑ کر ایک بار پھر پوری شدت سے کھڑے ہوں گے کہ سوال ایک ایسی حقیقت ہیں جنھیں نہ دبایا جا سکتا ہے نہ مٹا یا جا سکتا ہے؛ یہ اس وقت تک موجود رہتے ہیں جب تک ان کا تشفی بخش جواب نہ دے دیا جائے، لہذا جواب دینا از حد ضروری ہے۔