The news is by your side.

جوتے مہنگے ہوگئے ہیں

سنہ 1974 میں اس وقت کے وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کی سیاسی سرگرمیوں کے مرکز لالوکھیت کا دورہ کیا تھا ، اب اس علاقے کو لیاقت آباد کہا جاتا ہے تاہم لالوکھیت آج بھی معروف اور مستعمل ہے، اس دورے کے 44 سال بعد آج پیپلز پارٹی اسی لالوکھیت سے جڑے ایف سی ایریا کے ٹنکی گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کررہی ہے، ایف سی ایریا وفاقی ملازمین کی ایک بہت بڑی کالونی ہے اور اسے پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

لالوکھیت میں رہنے والے عوام میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو تقسیم کے وقت پاکستان آئے اور یہاں آباد ہوئے، ان لوگوں کی شناخت کا بنیادی سبب ان کا سیاسی شعور سمجھا ہے ، ایوب کی آمریت کے خلاف یہ علاقہ فاطمہ جناح کے حق میں ہونے والی سرگرمیوں کا انتہائی اہم مرکز تھا، یہاں یوپی سے ہجرت کرکے آئے علماء و فضلا کی کثیر تعداد آباد تھی۔ ضیاالحق کی آمریت کے خلاف بھی اس علاقے نے خم ٹھوک کر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ سنہ 1977 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت کا آفتاب غروب ہورہا تھا اور ضیا الحق کی اندھیروں سے بھرپور آمریت طلوع ہورہی تھی ، ایسے ماحول میں علاقائی سیاست کو رواج دیتے ہوئے ایم کیو ایم نے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کی اور اس کے بعد آئندہ اس علاقے نے آئندہ 35 سال تک کسی اور سیاسی جماعت کو منہ نہیں لگایا تا آنکہ 2013 کے انتخابات کا میدان سجا۔

ماضی میں پڑھے لکھے لوگوں کا مسکن سمجھا جانے والا ا ن تین دہائیوں میں یکسر تبدیل ہوچکا تھا ، پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت یہاں سے سکونت ترک کرکے گلشنِ اقبال اور گلستانِ جوہر کی جانب روانہ ہوچکی تھی اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ لوگ جو اپنی معاشی استطاعت نہ ہونے کے سبب یہاں رہنے پر مجبور تھے۔مصطفے ٰ کمال کی میئر شپ کے دوران اس علاقے کو تھوڑا ریلیف ملا لیکن پھر بھی شہر کی دیگر کئی علاقوں کی نسبت یہ علاقہ ابھی بھی بہت پسماندہ ہے۔ کچرے کے ڈھیر ، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور لوڈشیڈنگ اس علاقے کے سب سے اہم مسائل ہیں جن پر گزشتہ کئی سال سے کوئی توجہ نہیں دی گئی، ایم کیو ایم نے اپنے کارکنان کو اس علاقے کے شہریوں پر مسلط رکھا جس سے متنفر ہوکر یہاں کی یوتھ نے 2013 میں تحریکِ انصاف کی جانب دیکھنا شروع کردیا جس کے سبب انتخابات والے دن ایم کیو ایم کے گھر کی نشست یعنی این اے 246 میں تحریکِ انصاف اچھے خاصے ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ اتنے ووٹ جتنے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی یہاں سے مشترکہ طور پر بھی نہیں لے پائے تھے ۔

گزشتہ پانچ سالوں میں تحریکِ انصاف کا سحر ٹوٹ چکا ہے اور ایم کیو ایم اندرونِ خانہ تقسیم کا شکار ہے جس کے سبب لالو کھیت کا ووٹر اس بار طے کرنے سے قاصر ہے کہ وہ اپنا ووٹ کس جماعت کے پلڑے میں ڈالے۔ ایسے ماحول میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خالی جگہ کو پر کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور آج ہونے والا پیپلز پارٹی کا جلسہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں 34 سال بعد پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین اس علاقے میں آرہے ہیں۔

لالوکھیت کے عوام اپنا ووٹ کسے دیں گے یہ تو وقت بتائے گا فی الحال اس جلسے کے سبب ایف سی ایریا کے عوام کئی سالوں بعد اپنے بنیادی مسائل حل ہوتا دیکھ رہے ہیں جن میں سرِ فہرست صفائی ہے، جلسے کے لیے ایسے ایسے مقامات پر سے کچرا اٹھایا جاچکا ہے جہاں کئی سالوں سے کسی کی نظرِ کرم نہیں پڑی تھی۔ کئی سڑکوں کی مرمت کی جاچکی ہے تاہم لالوکھیت کے قلب 10 نمبر کے چوراہے کی مرمت ابھی بھی نہیں ہوسکی۔ یہ چوراہا شاہراہ پاکستان سے منسلک ہے اور اس کی حالت دیکھنے والی ہے، تاہم غریبوں کے جماعت کہلانے والی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے علاقے میں آنے کے موقع پر سیکیورٹی کے نام پر سارے علاقے میں کرفیو کا سما ہے جس سے علاقے کےرہائشیوں میں ایک منفی تاثر ابھررہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو جب 1974 میں یہاں تشریف لائے تھے تو انہوں نے علاقے کو پاکستان کی پہلی سپر مارکیٹ اور لیاقت آباد ٹیکنیکل کالج کا تحفہ دیا تھا، بدقسمتی سے تعمیر مکمل ہونے کے باوجود وہ سپر مارکیٹ آج بھی غیر فعال ہے، کہا جاتا ہے کہ بھٹو کی آمد کے موقع پر یہاں کے عوام نے انہیں جوتے دکھائے تھے جس پر دورانِ خطاب انہوں نے اپنی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برجستہ جواب دیتے ہوئےکہا تھا کہ ’’ مجھے معلوم ہے کہ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں‘‘۔

آج جب 34 سال بعد بلاول یہاں خطاب کرنے والے ہیں تو یہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک تاریخ ساز موقع ہے کہ وہ معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے کراچی کے سیاسی شعور کے حامل لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کریں، الیکشن سے قبل یہاں کے بنیادی مسائل حل کرکے عوام میں رسائی حاصل کریں اور ایم کیو ایم کی جانب سے خالی کردہ جگہ کر پر کرلیں۔ کیا پیپلز پارٹی یہ اہم معرکہ سر کر پائے گی ؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا، آج کی بلاول کی تقریر ملکی سطح پر شاید کسی اہمیت کی حامل ہو یا نہ ہو لیکن کراچی کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔

 

bostancı escort
ataşehir escort
kadıköy escort bayan
ataşehir escort
kartal escort
tuzla escort
pendik escort
bostancı escort
anadolu yakası escort
göztepe escort
alanya escort

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں