The news is by your side.

بلھے شاہ کے قدموں کی مٹی سے گندھا خمیر

عمار کاظمی – میرے دوست اور بڑے بھائیوں کی طرح ہیں ، لاہو کے رہائشی ہیں اور آج کل پنجاب کا مقدمہ پوری دل جمعی سے لڑ رہے ہیں۔ پنجاب اور کراچی کی سیاست پر ہمارے درمیان بہت سے معاملات پر اختلاف بے پناہ شدید ہے لیکن اس سے ہمارے آپسی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے نکتہ ٔنظر پر یقین رکھنے کے لیے آزاد ہے، اسی کا نام جمہوریت ہے جو فی الحال پاکستان میں انتہائی مشکل حالات میں ہے۔

متحدہ پنجاب کا مقدمہ زیادہ موثر انداز میں لڑنے کے لیے انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 39 قصور سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ بابا بلھے شا ہ کی سرزمین ہے، حالانکہ ا ن کا مزار این اے 39 میں نہیں آتا ت،اہم عمار کے آباؤ اجداد اسی مٹی کے خمیر سے گندھے ہوئے ہیں، وہ اس زمین کے بیٹے ہیں اور یہ زمین ان کی ماں ہے۔

ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن رانا اسحاق ہیں جن کے خلاف نیب میں 60 ارب روپے کی کرپشن کا کیس چل رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر سردار آصف نکئی ہیں جو کہ یا تو آزاد امید وار کی حیثیت سے میدان میں اتریں گے یا پھر مسلم لیگ ق کی چھتری تلے پناہ لیں گے، سنا ہے کہ ان کے ڈیرے سے ایک مرتبہ چھانگا مانگا کے جنگلات سے چوری ہونے والی لکڑی سے بھری ہوئی ٹرالی برآمد ہوئی تھی ، اس وقت یہ کیس دبا دیا گیا تھا تاہم اب ایک بار اسے اوپن کرنے کی بازگشت ہے۔

تیسرے مدمقابل ان کے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی ہیں جو کہ جمعیت اہلحدیث کے امیر ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔ ان کے والد اس حلقے سے فاتح رہ چکے ہیں، یہ حضرت کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ ممبئی اٹیک میں مطلوب ذکی الرحمن لکھوی سے ان کے قریبی تعلقات یا رشتے داری ہے۔

چوتھے نمبر پر ہیں ہمارے دوست اور بھائی عمار کاظمی جن کی جیت کی ہمیں بالکل امید نہیں کہ ان کے مدمقابل وہ ہیں جو کہ اس گندے، گھٹیا سیاسی نظام کے پیدا کردہ اور مضبوط ترین مہرے ہیں۔ ایسے میں ایک ایسے شخص کا قومی اسمبلی کے انتخابات جیتنا جو کہ مڈل کلاس علاقے میں رہتا ہو، مڈل کلاس طبقے کے زیرِ استعمال گاڑی استعمال کرتا ہو، قریب قریب ناممکن ہے۔

ا س کے باوجود میری بھرپور حمایت عمار کاظمی کے ساتھ ہے کہ کم از کم انہوں نے سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نظام کے خلاف باتیں بنانے کے بجائے میدان اتر کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اگر لاہور میں ہوتا تو سیاسی لوگوں سے دور رہنے کے اپنے اصولی فیصلے کے باوجود ان کی انتخابی مہم چلانے کے لیے میدان میں اترتا کہ صحافت کی طرح سیاست بھی ایک مقدس کام ہے ۔ میں صحافت میں کرپٹ افرا د کی حوصلہ شکنی اور صاف ستھرے افراد کو اپنا ہم قبیلہ سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سیاست میں عمار کاظمی جیسے لوگ سامنے آئیں جو براہ راست عوام کی صفوں میں سے تعلق رکھتے ہوں اور عوام کے مسائل کا انہیں کلیتاً ادراک ہو۔

عمار کاظمی صحافی بھی ہیں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ، گزشتہ چھ سال سے میں نے انہیں معاشرے کی ہر برائی کے خلاف برسرِ پیکار دیکھا ہے۔ بہت سے موضوعات پر یہ آپ کو صفحے کے بالکل منفرد رخ پر نظر آئیں گے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ یہ اور ان جیسے اعلیٰ ذہنی سطح رکھنے والے لوگ اگر ایوان میں ہوں گے تو آج نہیں تو کل پاکستان بہتری کی جانب بڑھے گا لیکن اگر وہی روایتی لوگ میدان میں رہے تو ملک کا بیڑہ غرق تو ویسے ہی ہوگیا ہے۔

ایک بار پھر کہوں گا کہ مجھے اپنے ملک کے کرپٹ الیکٹورل سسٹم پر پورا بھروسا ہے لہذا مجھے عمار بھائی کی فتح کی کوئی امید نہیں لیکن پھر بھی دل میں خواہش ضرور ہے کہ وہ فتح یاب ہوں اور ایوان میں جائیں کہ مڈل کلاس ہی وہ قوت ہے جو قوموں کا نصیب سنوارے کی طاقت رکھتی ہے ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں