The news is by your side.

مودی، حسینہ، اورہمارے کچھ اپنے

جب سے ’’مودی‘‘ نے ’’حسینہ‘‘ کے پہلو میں بیٹھ کے سلگتا بیان دیا ہے تب سے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ جلتی پہ تیل کا کام بھارتی وزیر کے بیان نے کردیا۔آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ اس میں خوشی کی بھلا کیا بات ہے۔ بقول ہمارے ایک عزیز دوست کے بقول ہم پاکستانی ہوں نہ ہوں لیکن بھارتی دشمن ضرور ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم دن رات پاکستان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن بھارتی ہرزہ سرائی کے بعد میں خود کو پاکستانی پاکستانی محسوس کررہا ہوں۔ یہ کیفیت صرف ایک صاحب کی نہیں ہوتی بلکہ ہرپاکستانی کی ہوتی ہے۔ ہم دن رات وطن عزیزمیں سہولتوں کا رونا روتے رہیں۔ اس پہ لعن طعن کرتے رہیں لیکن جب کوئی پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے یا دھمکی آمیزلہجہ اختیار کرے اورخاص طور پہ یہ دھمکی بھارت کی طرف سے دی جائے توپھر اس کے بعد پھراس قوم کا جذبہ دیکھنے والا ہوتا ہے اورشاید ہرکچھ عرصے بعد بھارت کوئی نہ کوئی پھلجڑی چھوڑتا ہی اسی لیے ہے کہ اس قوم کا جذبہ دیکھا جائے کہ کم ہوا ہے یا نہیں اورجب اسے نظر آتا ہے کہ یہ جذبہ تو آج بھی 65ء والا ہے تو جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ہرمرتبہ دشمن یہ دیکھ کردنگ رہ جاتا ہے کہ اس کا مقابلہ ایک پاکستان سے نہیں بلکہ اس کے مقابلے پہ اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستان ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام مزدور بھی بھارت کے مقابلے میں خود کو ایک مکمل پاکستان سمجھتا ہے۔

مودی کا بیان شاید وہ خفت مٹانے کے لیے ہے جو دورہٗ چین میں اقتصادی راہداری کے حوالے سے موقف کی ناکامی کی صورت میں اٹھانا پڑی۔ مودی سرکارچین کو یہ باورکروانے میں ناکام رہی کہ پاکستان اس منصوبے کا اہل نہیں اوریہ خفت جب چھپائے نہ چھپی تو حسینہ کے پہلو میں جاکراپنا غصہ نکالنا شروع کردیا۔ مودی سرکار کے حالیہ بیانات نہ صرف ان کی اپنی خفت چھپانے کے لیے اہم ہیں بلکہ ان لوگوں کے منہ پر بھی طمانچے کی صورت ہیں جن کی تحریروں کا آغاز و اختتام ہی “موسٹ فیورٹ نیشن” کے لفظوں پہ ہوتا تھا۔

مودی کے حالیہ بیانات اوروزراءکی شعلہ بیانیوں کے حوالے سے کڑیاں ملانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ کڑیاں خود بخود ہی ملتی جاتی ہیں ہماری فوج ضرب عضب میں مصروف ہے۔ وزیراعظم صاحب بعض ناگزیروجوہات کی بناءپرشاید کچھ کہنے سے قاصر ہیں لہذا یہ ذمہ داری ان کے پیادے ہی سرانجام دے رہے ہیں اورخوب سرانجام دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں بھارت ان پیادوں کے بیانات سننے کے لیے پھلجڑیاں نہیں چھوڑتا بلکہ وہ ان سپوتوں کے جذبے کا جائزہ لیتا ہے جو ہرطرح کی تنقید سے ماوراءہوکرمادروطن کے دفاع میں مصروف ہیں اورفارمیشن کمانڈرزکانفرنس میں جس طرح کا جواب بھارت کو ہمارے خاموش اور دھیمے جرنیل نے دیا ہے اس سے بنیا پاکستان کے خلاف بیان بازی چھوڑ کر اپنی لنگوٹ سنبھالنے میں مصروف ہوگیا ہے۔

حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی نہ تو کسی سے ڈھکی چھپی ہے نہ ہی اس میں کوئی دو رائے ہیں کہ پاکستان نوازبنگالیوں کے گلے میں پھندے ڈالنا حسینہ کا اولین مقصد ہے۔ مودی کے دورہ بنگلہ دیش کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ حسینہ واجد نے جناب کو لبریشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ یہ ایوارڈ پاکستان دشمنی کا ایوارڈ تھا جس سے حسینہ نے مودی پہ یہ واضح کیا کہ ہم دونوں مشترکہ طورپہ پاکستان سے دشمنی کا عفریت پالیں گے ۔ حسینہ جی مودی کو کچھ بھی دیں اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کیوں کہ اس قوم کا جذبہ ہی دشمن پہ لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس ایوارڈ سے توجہ چند پرانی تصاویر کی طرف چلی گئی۔ یہ تصاویربنگلہ دیش میں ہونے والی ایک کانفرنس کی تھیں اوراس کانفرنس کا مقصد ’’عزت افزائی‘‘ تھا یعنی بنگلہ دیش کے قیام میں مددگار ہونے والوں کے لیے اعزازاوراس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو بنگلہ دیش کی آزادی کے دوستوں سے تعبیرکیا گیا تھا یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنے کی خوشی منائی جا رہی تھی۔ اور پاکستان توڑنے کی حمایت کرنے والوں کو انعامات سے نوازا جا رہا تھا۔ ان تصاویر کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں ایسے چہرے بھی نظرآرہے ہیں جن کے قلم کی کاٹ اور لفظوں کی دھارتلوار سے زیادہ تیز سمجھی جاتی ہے اورجو صحافت کے مہاتیر بنے بیٹھے ہیں اور سونے پہ سہاگہ کہ انہیں اس کانفرنس میں شرکت پہ آج تک افسوس نہیں ہوا۔ اب میں ایک طالبعلم کی حیثیت سے منتظر ہوں کہ حسینہ، مودی گٹھ جوڑپہ ان کا قلم کیا لکھتا ہے اور ان کی زبان کیا کہتی ہے جن کا حسینہ واجد نے 71ءمیں مدد پرشکریہ ادا کیا بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ زبان بولتی بھی ہے یا نہیں۔

یہ وطن کی حرمت پامال کرنے والے نام نہاد دانشور اوراہل عقل تو خیراپنا حصہ بقدرے جثہ ڈال ہی رہے ہیں۔ لیکن دکھ کی انتہا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ دوڑ ہے وہ ایوان میں آتے ہیں اور ترقی کے دعوے کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ شاید شہنشاۂ عالم کے ’’ نورتن‘‘ ان کو یہ بتانا بھول گئے کہ جناب دشمن للکار رہا ہے۔ اس کی للکار کے جواب میں ترقی کے دعوﺅں کے بجائے ایک دھاڑ کی ضرورت ہے لیکن شاید کسی’’بیربل‘‘ نے کہہ دیا ہو گا کہ جناب چھوڑیے آپ دھاڑ کرکیوں اپنے تعلقات خراب کریں گے۔ دھاڑنے بھی انہیں دیجیے جو خارجہ، داخلہ، اندرونی اور بیرونی جنگوں سے پہلے ہی نمٹ رہے ہیں اورایسا ہی ہوا کہ بیان دینے کی ذمہ داری کسی اورکی تھی لیکن دینا کسی اورکو پڑا۔ ایوان اقتدار کے باسی یہ حقیقت تو شاید جانتے ہی نہیں کہ جب سرحدوں پہ دشمن غرا رہا ہو تو میٹرو بس کے بجائے ٹھوس جواب کی ضرورت ہوتی ہے۔

مودی و حسینہ گٹھ جوڑ اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستانی فوج سے مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف 313کا جذبہ ہے اور دوسری طرف ایک کبوتر سے خوفزدہ عیاری۔ پاکستانی کے قبائلی علاقوں کی قیادت نے بھی بھارت کو خبردار کیا ہے اور شاید مودی سرکار نے 48ءکی تاریخ تو پڑھ رکھی ہو گی۔ ہم آپس میں لڑیں یا خوش رہیں۔ تنقید کریں یا توصیف کریں۔ باہم دست و گریباں ہوں یا باہم شکرو شیر ۔بیرونی دشمن کے لیے ہم ایک فولادی مکے کی صورت ہیں۔ جس کا وار جبڑوں کو اپنے جگہ سے ہلا دے گا۔
اور ان نادان اپنوں کے لیے صرف یہی پیغام ہے جو اغیار کے تمغے سجانا اعزاز سمجھ رہے ہیں کہ یہ دھرتی اگر عزت کے مینار پہ چڑھا سکتی ہے تو یہ خود سے وفا نہ کرنے والوں کو رسوا بھی کر سکتی ہے۔ اس دھرتی کے خمیر میں اگر خلوص و عزت کی مٹھاس ہے تو اس میں دھتکار اور ذلت کی رسوائی بھی ہے۔ آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو مادرِ وطن کی حرمت زیادہ عزیز ہے یا دشمن کے انعام و تمغے۔ پاکستان پائندہ باد

شاید آپ یہ بھی پسند کریں