The news is by your side.

یہ کھیل صرف کھیل نہیں ہے

    ایک عالمی منظر نامے پر اگست 2008میں ابھرا، دوسرا اگست 2009میں۔انداز کم و بیش ایک سا تھا۔ موازنہ کیا جانے لگا۔ پہلے سال کبھی ایک کو دوسرے پہ فوقیت دی جانے لگی۔ کبھی دوسرا پہلے پہ بھاری محسوس ہونے لگا۔ موازنہ نہ صرف مقامی سطح پہ شروع ہو گیا بلکہ عالمی جائزوں میں بھی دونوں کا موازنہ کیا جانے لگا۔

کھیل تھا کرکٹ، موازنہ ہو رہا تھا دو کھلاڑیوں کا۔ پہلا کھلاڑی تھا ویرات کوہلی جس نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم اگست 2008 میں رکھا۔ اور تعلق بھارت سے ہے اورآج کل وہ دنیا میں اپنے بہترین کھیل کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور دنیا کی ایک بہترین ٹیم کی قیادت ان کے پاس ہے۔ دوسرا کھلاڑی عمر اکمل ہے جس نے پاکستان کی جانب سے اگست 2009 میں عالمی کرکٹ میں قدم رکھا۔ اور آج کل سنٹرل کنٹریکٹ تک کھو چکے ہیں۔ ٹیم سے باہر ہیں۔ اور اپنے کھیل کا جادو بھی متعدد مواقع پر جگانے میں ناکام رہے ہیں۔

ان دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔  کرکٹ کو گیم آف جینٹلمینز اسے ایسے ہی نہیں کہہ دیا گیا ۔ اس کھیل میں مہارت کے ساتھ مزاج کا  بہت عمل دخل ہے۔  میں اور مرشد اکھٹے میچ دیکھ رہے تھے۔ میرے عمر اکمل کے ویرات کوہلی سے موازنے پہ  یہ  ان کا کہنا تھا۔ موازنہ ایسے موقع پر زیر بحث آیا تھا جب عالمی کرکٹ میں ویرات کوہلی اور عمر اکمل کم و بیش ریکارڈز کے حوالے سے زیادہ فرق نہیں رکھتے ہیں۔

میرے اختلاف کے باجود مرشد کا کہنا تھا کہ اس کھیل میں وہی دنیا میں نام بناتا ہے جس میں مستقل مزاجی ہو اور اس لڑکے کے چلنے کے انداز سے ہی شرارت نظر آ رہی ہے۔ اس وقت کی اس بے تکی منطق پہ آج یقین سا ہو رہا ہے۔ آج ویرات کوہلی اپنے کھیل اور عمر اکمل اپنی دوسری حرکات کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ مکی آرتھر پہ الزامات کے حوالے سے بھی انہوں نے نہایت غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔

ایک ٹیم کو چیمپئین بنوانے کے بعد کیا واقعی کوئی ان کے کردار کی طرف انگلی اٹھا سکتا ہے جب کہ کسی اور کھلاڑی نے شکایت بھی نہیں کی ؟ جس سے اُس کا موازنہ کیا جاتا تھا۔ آج وہ اتنا طاقتور ہے کہ کوچ کے انتخاب میں بھی اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور یہاں حال یہ ہے کہ موصوف تنازعات میں ان رہنے ، فٹنس مسائل اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے سینٹرل کنٹریکٹ پانے والے35کھلاڑیوں میں بھی جگہ نہیں بنا سکے ۔ اور بناتے بھی کیسے ۔ کارکردگی کیا تھی؟ وہ اگر بیانات اور تنازعات میں الجھنے کے بجائے چیمپیئنز ٹرافی کی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ جا کے اپنی فٹنس پہ توجہ دیتے تو آج وننگ ٹیم کا حصہ ہوتے نہ کہ وہاں سے سر جھکائے واپس ہوتے ۔ (اور انہوں نے اس واپسی میں اپنی غلطی کو مانا بھی)۔

جس سے موازنہ ہوتا تھا اُس کا صرف بلا بولتا تھا۔ مگر عمر اکمل کبھی قائد اعظم ٹرافی میں باسط علی سے الجھتے پائے گئے۔ اور کبھی پارٹیوں میں ہلا گلا ان کی ذات کو متنازعہ بناتا رہا۔ کبھی ٹریفک وارڈن سے جھگڑا خبروں کی زینت بنا ۔۔ کبھی وقار یونس کے ساتھ چپقلش عوام تک پہنچی۔ حال ہی میں جنید خان سے تنازعہ بھی زباں زد عام ہے۔ کیا سارے کوچز ہی غلط ہیں اور عمر اکمل ٹھیک ہیں؟ حال ہی میں ڈانس پارٹی تنازعے کی وجہ سے پرستاروں سے مانگی گئی معافی ابھی پرانی نہیں ہوئی تھی کہ مکی آرتھر پہ الزامات کا نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے۔ جس پہ رمیض راجہ کا کہنا بالکل بجا ہے کہ عمر اکمل کو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔

کوہلی کا انداز ہی نہیں کارکردگی  کی بھی کاپی کرتے تو شاید عمر اکمل آج پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم ترین رکن ہوتے ۔ کوہلی آج 186ون ڈے میچز میں پچاس کی زائد اوسط سے آٹھ ہزار سے زائد رنز بنا چکا ہے اور عمر اکمل کی کارکردگی 114میچز میں30سے زائد کی اوسط سے بس تین ہزار کے قریب رنز بنا پائے ہیں۔

میچز کا فرق صرف 72 ہے مگر رنز کا ایک انبار ہے جو فرق کی صورت میں سامنے ہے۔ آج کوہلی عالمی کرکٹ کے افق کا ایک جگمگاتا ستارہ ہے تو عمر اکمل اپنے کیرئیر کو داؤ پہ لگائے بیٹھے ہیں۔ حالیہ تنازعہ بھی سراسر عمر اکمل صاحب کے خلاف ہی جا رہا ہے کیوں کہ تمام سابق کرکٹرز اس بات پہ متفق نظر آتے ہیں کہ کوچ سختی نہیں کرے  گا تو وہ ٹیم کو سنبھال بھی نہیں سکے گا ‘ بقول وسیم اکرم کے”کوچ اگر سختی نہیں کرئے گا تو کیا گود میں بٹھائے گا”۔ اور مشورہ بھی برا نہیں تھا کہ پہلے کلب کرکٹ میں اپنا آپ ثابت کیجیے اور دکھائیے کہ آپ کی کارکردگی بولے نہ کہ آپ کی زبان اور آپ کا مستانہ مزاج۔

آج آپ کے ساتھ کا کھلاڑی ایک مضبوط ترین ٹیم کی قیادت کر رہا ہے اور آپ کرکٹ کے علاوہ ہر چیز میں نظر آ رہے ہیں۔ کارکردگی دکھائیں تا کہ آپ کسی پہ کوئی الزام لگائیں بھی تو کوئی اس کو سنجیدگی سے لے کہ یقینا اتنا اچھا کھیلنے والا کھلاڑی الزام لگا رہا ہے تو کوئی وجہ ہو گی۔ ورنہ جو حال آپ کی کارکردگی کا ابھی ہے اس پہ تو آپ کے الزامات سن کے آپ کو ماہر نفسیات سے اپنا چیک اپ کرانے کے مشورے ہی ملیں گے ۔

عمر اکمل جب یہ جان جائیں گے کہ یہ کھیل صرف کھیل ہی نہیں کہ بیانات و تنازعات سے ٹیم میں جگہ نہیں بنے گی کچھ کر کے دکھانا بھی ہو گا تب وہ شاید پاکستان کرکٹ کا شاید ایک روشن ستارہ بن پائیں،  ورنہ کچھ عرصہ بعد اُن کا نام بھی ماضی کا حصہ بن جائے گا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں