The news is by your side.

میں کس زباں سے کہوں جشنِ آزادی مبارک ہو

کراچی سے لے اسکرددو تک ملک کے طول و عرض میں جشنِ آزادی کی رونقیں اپنے عروج پر ہیں اور پاکستان کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں کبھی ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والےسازشی عناصر نے پاکستان کے پرچم جلائے تھے لیکن اب وہاں بھی سبز ہلالی پرچم اپنی بہاردکھا رہا ہے۔

آزادی کس قدر عظیم نعمت ہے اس کااندازہ صرف وہی کرسکتے ہیں جو کہ آزادی کی نعمت سے محروم ہوں دنیا میں کئی خطے ایسے ہیں جہاں کے عوام  آج کے اس جدید دور میں بھی کسی غاصب کے تسلط سے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود متنازعہ علاقہ کشمیر بھی ہے۔

بہرحال آج کا موضوع کشمہیر نہیں بلکہ جشنِ آزادی ہے یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم دن ہے اسی دن برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی راج اور ہندوسامراج کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی اور نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے امید کا ایکسورج طلوع ہوا تھا پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا اور سمجھا جانے لگا اور پاکستان نے مستقبل کی راہ پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے انتہائی حسین ملک ہے یہاں بلندو بالا پہاڑ ہیں تو بل کھاتے دریا بھی ، سرسبز زرخیز میدان ہیں تو ٹھاٹھیں مارتے سمندر بھی ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے عوام دنیا کی نظروں میں انتہائی قابل ٹہھرے ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیراور ڈاکٹر ادیب رضوی یہی کہ ہونہار سپوت ہیں، پاکستان کا شعلہ بیان شاعر فیض ہی ہے جسے دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کرکے اس کی زندگی میں ہی پڑھ لیا گیا۔ برصغیر میں یونانی طب کے احیاء کا سہرا پاکستان کے حکیم محمد سعید کے سربندھا ہے، ثمینہ حیات پاکستان کی ہی بیٹی ہے کہ جس کے عزم کے آگے دنیا کے عظیم ترین پہاڑ بھی ہیچ ہیں اور وہ سب پاکستان کے ہی فرزند ہیں جنہوں نے دنیا کے کئی ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنی قابلیت کی بناپر اپنے ملک کا لوہا منوایا اور آج بھی منوارہے ہیں اور وہ جانباز سپوت بھی اسی دھرتی کے ہیں جو کہ سیاچن جیسے بلند ترین میدانِ جنگ میں  دنیا کی سب سے مشکل جنگ لڑنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

پھر یوں ہوا کہ یہ حسن بے مثال کہ جس کا ثانی ہی کوئی نہ تھا  دنیا کی نظرِ بد کا شکار ہوگیا اور پھر پاکستان کی تنزلی کا سفر شروع ہوا جس کا آغاز ہی اس قدر عظیم تھا کہ ہم آج تک اس زخم کی ٹیس اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں یعنی بنگلہ دیش کی علیحدگی، آج دنیا بھر کے سامنے یہ بات آشکارہوچکی ہے کہ بنگال کی علیحدگی کے پیچھے کون تھا۔ پھر اسکے بعد ملک کی پہلی عوامی حکومت کو برطرف کرکے آمریت نے ملک پر اپنے پنجے گاڑ دئیے۔ ضیا دور نے ہمیں کچھ تحائف دئیے پہلا اسلحہ اور منشیات کا کلچر، افغان مہاجرین اور سب سے مہلک مذہبی انتہا پسندی جس کے ثمرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔


گزشتہ دہائی میں پاکستان نے اپنی 68 سالہ تاریخ کا بدترین دور دیکھا کہ اس دور میں ملک کے ہر اک گلی کوچے کو انتہا پسند دہشت گردوں نے لہو سے نہلا دیا اور لگ بھگ 50 ہزار پاکستانی شہری  اپنے ارضِ وطن کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کربیٹھے۔


یہی وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ گئی تھی بیروزگاری انتہا پر تھی اور ملک کے عوام شدید اذیت میں مبتلا ہوچکے تھے۔

بالاخر پاکستان کے مقتدر حلقے گہری نیند سے جاگے اور پاکستان کے سب اہم مسئلے یعنی دہشت گردی پر توجہ مبذول کی گئی اور ضربِ عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کے مثبت اثرات کراچی سے لے کر اسکردو تک محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ضربِ عضب کے نتیجے میں ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے اور پاک چائنہ اکانومک کاریڈور اور اس جیسے کئی دیگر منصوبوں کے سبب تباہ حال ملکی معیشت نے بھی مثبت اشارے دینا شروع کردئیے ہیں۔


یہ تک تو سب ہوگیا جو ہونا تھا لیکن کیا عوام جو کہ میں اور آپ ہیں بتانا پسند کریں گے کہ ہم کیا کررہے ہیں؟۔

ملک بھر میں جشن آزادی کا سما ہے یوم ، آزادی اس مملکت، خدادداد سے ایفائے عہد کا دن ہے لیکن ہم میں سےبیشتر اس دن اپنی نیند پوری کریں گے یا جو افراد جاگ رہے ہوں گے وہ سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر بے مقصد فلمیں دیکھنے میں گزاریں گے۔ جن میں جوشِ جوانی زیادہ ہے وہ اپنے اپنے موٹر سائیکل لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سڑکوں کو ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلا کر’صراطِ جہنم‘ میں تبدیل کردیں گے۔  کہیں آتش بازی ہوگی تو کہیں آتشیں اسلحے کا استعمال، کہیں خواتین کو ستایا جائے گا توکہیں بزرگوں کو رلایا جائے گا  الغرض اک ہجوم ہوگا جو کہ سڑکوں پر امڈا ہوا ہوگا جس کی نہ کوئی منزل ہوگی نہ کوئی راستہ بس سب ہی شتر ِ بے مہار کی مانند بلا مقصد گھوم رہے ہوں گے اور وقت اور توانائیوں کا ضیاع ہورہاہوگا۔

اگلے دن سب اٹھیں گے ٹی وی دیکھیں گے اخبار پڑھیں گے اور بڑھک مار دیں گے کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، یہاں کا تو نظام ہی خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔

جی نہیں جناب! قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں  قوم بننے کے لئے قربانی کا جذبہ اور اپنائیت کا احساس لازمی ہے۔ پاکستان ہمارا ضرور ہے لیکن ہمارے باپ کی جاگیر نہیں کہ ہم جو اور جیسا دل چاہے اس کے ساتھ سلوک روا رکھیں۔

ہمیں اس عظیم وطن کا احساس کرنا ہوگا اس تعمیر میں حصہ لینا ہوگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود تو اس ملک کہ یوم ِ آزادی پر ایک پودا نہ لگائیں اور امید رکھیں کہ حکومت ماحولیات کی بہتری کے لئے کام کرے گی، ہم اپنی موٹر سائیکل بے ضابطگی سے چلائیں اور حکومت ضابطے میں رہ کر کام کرے، ہم یومِ آزادی پر طوفانِ بدتمیزی بپا کردیں اور عوامی نمائندوں سے امید رکھیں کہ وہ  پارلیمنٹ میں مہذب انداز میں بیٹھا کریں۔ یاد رکھیئے کہ جب کسی قوم کو اعمال بگڑ جاتے ہیں تو ان پر نااہل حکمران مسلط کیئے جاتے ہیں لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں اناہل حکمرانوں سے چھٹکارا ملا رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا ’ْقبلہ‘ درست کریں اور آزادی کا جشن ویسے ہی منائیں جیساکہ مہذب اقوام میں جشن منانے کا طریقہ رائج ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں