تعلیم کو عام طور پر ایک معاشرتی اچھائی تصور کیا جاتا ہے جبکہ بعض افراد کے نزدیک یہ کئی مسائل کا حل بھی ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تعلیم سماجی تبدیلی کا محرک بن سکتی ہے، اقتصادی ترقی لاسکتی ہے، اور نچلے طبقے سے اونچے طبقے تک جانا ممکن بنا سکتی ہے۔ لیکن افسوس آج کے زمانے میں ہم نے اس کو محض نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔
موجودہ دور میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد محض ملازمتوں کا حصول ہی رہ گیا ہے، اور اس دوڑ میں امتحانی نتائج اور ڈگریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں، ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ سخت مقابلہ صرف نام، اچھی تنخواہ، اور مراعات حاصل کرنے کے لیے ہے۔
تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان اس بات سے بھی با خبر ہوتے ہیں کہ رواں سال سی ایس ایس کے امتحان میں کتنی نشستوں کے لیے کتنے امیدواروں نے امتحان دیا۔ کالج کے زمانے میں اپنے پروفیسر کی ایک بات آج تک یاد ہے کہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن تعلیم کو پیسے کمانے کے غرض سے حاصل نہ کرو، پیسے تو جاہل انسان بھی کما لیتا ہے۔
نوے کی دہائی میں کہا جاتا تھا کہ بی کام کی ڈگری والوں کو اچھی نوکری ملتی ہے ، تھورے ہی وقت کے بعد سنا کہ ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو پُرکشش تنخواہ کی پیشکش ہوتی ہے، زمانے کی ترقی کے ساتھ جہاں کپیوٹر سسٹم اپ گریڈ ہوا وہیں حصولِ تعلیم کا سسٹم بھی اپ گریڈ ہوا ہے۔
آج کا دور بقول ورلڈ بینک ایسے نوجوانوں کا دور ہے جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تقریباَ پوری دنیا کی کل نوجوان آبادی کے ایک چوتھائی حصے کو جو کہ امریکہ کی کل آبادی کے حجم کے برابر ہے کے لئے اس نظام کے پاس دینے کے لئے کوئی کام موجود نہیں ہے، انسانی تاریخ کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کہ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ کام کرنے کے لئے تیار ہے لیکن ہمارا نظام اس نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔
بیشتر نوجوان تعلیم حاصل کرنے دوران بے پناہ خواب سجا بیٹھتے ہیں لیکن جب وہ ڈگری لے کر نوکری لئے در بہ در گھومتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بناسفارش تو پیون کی نوکری بھی نہیں ملتی ہے ، سونے پہ سہاگا یہ ہے کہ جہاں سفارش نہیں چلتی وہاں رشوت کام آتی ہے، عموماَ یہ صورتِ حال سرکاری نوکری کے حصول کے وقت پیش آتی ہے ۔
ترقی کی بلندیوں کو چھونے والی اقوام نے تعلیم کو ہی اپنا زینہ بنایا، جن اقوام نے تعلیم کو زیور سمجھا وہ سنورگئیں، جنہوں نے فرض سمجھا وہ حق تلفی جیسے گناہ سے بچ گئیں، جنہوں نے ہتھیار سمجھا وہ جیت گئیں اور جن اقوام نے اس کو ضرورت بنا لیا وہ کبھی ضرورت مند نہ ہوئیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے، نوجوانوں کو ملک کا مستقبل تو کہا جاتا ہے تاہم حالات یہ ہیں کہ ملکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 9 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔
دوسری جانب عالمی اداروں کے مطابق یہ شرح 16 فیصد ہے، ایسے حالات میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے معاشرے سے رشتہ ترک کرکے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا نوکریاں کرنے کی خواہاں ہے۔
پاکستان کے نوجوان عمومی طور پر اپنے معاشرے سے نالاں نظر آتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ ان سے پچھلی نسل نے انہیں ایک صحت مند معاشرہ مہیا نہیں کیا جس کے سبب انہیں معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔
چند دن قبل کراچی میں ایک اے سی سی اے کے طالب علم سے ملاقات ہوئی جوکہ ذاتی طور پر کراچی کے رہن سہن کا دلدادہ تھا لیکن مسائل کے باعث بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح رکھتا تھا۔
واضح رہے کہ تعلیم کو فروغ دے کر ملک کو غربت، بیروزگاری اور انتہاپسندی جیسے مسائل سے نجات دلائی جاسکتی ہے، فروغ تعلیم کیلئے وسائل کی فراہمی سودمند سرمایہ کاری ہے۔