The news is by your side.

کیا واقعی ہم ایک زندہ قوم ہیں ؟؟

مجھے نوے کی دہائی میں گزرا ہوا بچپن آج بھی یاد ہے جب ماہ اگست کی ابتدا ہوتے ہی وطن عزیز سے محبت کا جوش اور جذبہ اس عروج پر پہنچ جاتا تھا کہ سارا دن بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر بس گھر و محلہ سجانے کی امنگ میں رہتے تھے رات کو بھی یہی سوچتے ہوئے سویا کرتے تھے کہ صبح کیا کرنا ہے، بچپن سے ہی چودہ اگست کا دن میرے لیے ایک الگ دن کی حیثیت رکھتا تھا جیسے عید کا دن ہو۔یوم آزادی کے روز صبح سویرے سینے پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر اسکول میں ہونے والے جشن آزادی کے پروگرام میں شرکت کرنا،آج بھی یوم آزادی کا نام سن کر بچپن کی وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔

اب جبکہ بچپن بیت چکا اور اخبارات، رسائل اور ٹی وی کی وجہ سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، تجزیہ نگاروں کے تجزیے، کالم نویسوں کی پُر فکر باتیں مجھے میرے خوابوں کی دنیا سے باہر نکال لاتی ہیں جہاں چاروں طرف اندھیرا ہے اور کہیں سے روشنی کی کوئی رمق نہیں نظر آتی۔ ظاہر ہے تجزیہ نگار صورتحال کو بہت باریک بینی سے دیکھ کر تجزیے کرتے ہیں لیکن جو تصویر وہ پیش کرتے ہیں وہ مجھے بہت پریشان کرتی ہیں۔

بچپن میں سنا ہوا ملی نغمہ ’ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ۔۔۔۔ ہم سب کی ہے یہ پہچان ہم سب کا پاکستان پاکستان ۔۔۔ جی ہاں میں آج بھی اتفاق کرتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ سب کی پہچان پاکستان ہی ہے لیکن اس ملی نغمے کے پہلے جملے پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ ’کیا واقعی ہم زندہ قوم ہیں ؟؟‘۔

وطن عزیز کے قومی ترانے میں بڑے فخر اور ادب کے ساتھ سر جھکا کر ہم یہ کہتے ہیں کہ ’سایہ خدائے ذوالجلال‘لیکن افسوس کہ اسی سایہ خدائے ذوالجلال میں چوری ، جھوٹ، رشوت ، عصمت دری کرکے وطن پاک کی عزت کو پامال کرتے ہیں۔ہم یوم آزادی کے موقع پر ایک دن سبز پرچم کو بلند کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے خدائے رب ذوالجلال کے دیئے گئے تحفے پاکستان کا حق ادا کردیا لیکن پورا سال اپنے انفرادی مفاد کی خاطر اسی پاکستان کی جڑیں کھودنے سے فرصت نہیں ملتی ۔

ہم بچپن سے یہ کہتے سنتے آئے ہیں کہ ’اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان ‘لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اسی وطن عزیز قائد و بانی قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی تصاویر کے نیچے بیٹھ کر احسان فراموشی کر رہے ہوتے ہیں، ہم اپنی غلطیوں کا بھی کبھی اعتراف نہیں کرتے اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ قائد اعظم کی انتھک محنت،جدوجہد اور ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے باعث ہمیں یہ ملک تو مل گیا لیکن ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ ۔

ایک وقت تھا جب کسی محلے میں ایک میت ہوجاتی تھی تو پورا محلہ غم میں ڈوب جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہمارے ملک نے ترقی کی وہیں ہم بھی ترقی کرکے اس خود غرضی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ اب ایک تو کیا دس جانیں بھی چلی جائیں تو ہماری ذات پر کوئی فرق نہیں پڑھتا، گزشتہ دنوں ہونے سانحہ کوئٹہ میں ستر سے زائد افراد اپنی زندگی گنوا بیٹھے جس پر پوری قوم نے افسوس کا اظہار کیا لیکن اگلے دن ہی ہم معمول کے مطابق اپنی زندگی گزارنے میں مشغول ہوگئے

آج چودہ اگست کے دن یوم آزادی کے موقع پر ہم سب جذبہ حب الوطنی اور وطن سے وفاداری کی بات تو کرتے ہیں لیکن پندرہ اگست کی صبح ساری وفاوں کی فضا کو دھوئیں کی طرح اُڑھا دیتے ہیں۔ ہمیں وطن عزیز جیسی نعمت اور قائد اعظم کے احسانات کو فراموش کرنے سے پہلے اس بات کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا ہے ؟؟ جشن آزادی محض وطن سے ایک دن کی محبت کا نام نہیں بلکہ ہمیں وطن کی حفاظت کی خاطر سرحدوں پر کھڑے ان فوجی جوانوں کی طرح وطن عزیز پر ہر لمحہ قربان ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔

اگر ہمیں واقعی ایک زندہ قوم بننا ہے تو ہمیں اپنے کردار پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا اور منافقت ترک کرنی ہوگی ورنہ صرف بڑھکیں مارنے، شیخیاں بگھارنے اور آزادی کا ایک دن جوش و خروش کے ساتھ منانے سے کام نہیں چلے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں