کراچی میں ڈی آئی جی ٹریفک امیرشیخ نے موٹرسائیکل سوارکے ہیلمٹ نہ پہننے پر عائد جرمانے کی رقم ڈیڑھ سو روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی ہے جب کہ پیچھے بیٹھے سوارکو ہیلمٹ نہ پہننے پر پانچ سو روپے جرمانے کی مد میں اداکرنے ہوں گے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ڈی آئی جی کی یہ تجویز شہریوں کے مفاد میں ہے؟ یا معاملہ کچھ اور ہے، اگر معاملہ کچھ اور نہیں تو بھی کیا یہ اقدام شہریوں کے لیے مثبت ثابت ہوگا؟؟
کیا یہ تجویز ہیلمٹ کی فروخت میں اضافے یا سڑکوں پر کھڑے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی ‘‘روزی’’ میں اضافے یا ’’برکت‘‘ کی بہترین کوشش ہے؟
قبل ازیں بھی موصوف اس قسم کی ایک کوشش کرچکے ہیں کہ موٹر سائیکلوں پرخواتین کو بھی ہیلمٹ پہننا ہوگا جس پر شدید رد عمل سامنے آنے پر ڈی آئی جی کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا، تاہم اس سے چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پھر یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ خواتین کو بھی ہیلمٹ پہننا ہوگا۔
خیر اس بحث سے قطع نظر ہمارا عوامی مفاد میں مؤقف صرف یہ ہے کہ کیا ڈیڑھ سو روپے سے یک دم ایک ہزار روپے جرمانہ کرنا ہی ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا ذریعہ ہے؟ کیا حکومت کو علم نہیں کہ موٹر سائیکل متوسط اورغریب طبقے کی سواری ہے جس پرموٹر سائیکل کا مالک کسی نہ کسی صورت متعدد چھوٹی موٹی خرابیوں کے باوجود بغیر درست کرائے سفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے اگر اس کی جیب میں اتنے ہیلمٹس خریدنے کے لیے رقم ہو تو وہ پہلے اپنی بائیک کی مینٹیننس پر توجہ دے گا۔
اس کے علاوہ شاہراہ فیصل پر بھی رکشوں کی پابندی ایک ماہ کیلئے مؤخر ہے، شاید ٹریفک حکام اس بات سے ناواقف ہیں کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ شہریوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ کم ہے، رکشا کراچی کے متوسط اورغریب عوام کی سواری ہے اوراکثر لوگ وقت کی کمی کے باعث بھی اس میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔شاہراہ فیصل پر رکشاؤں پر پابندی سے صرف شہریوں کو ہی پریشانی ہوگی، کیا ہی اچھا ہو کہ محکمہ ٹریفک کے کرتا دھرتا پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلہ پر بھی توجہ دیں۔
کراچی میں دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کے گزرنے پر پابندی پہلے بھی لگائی جا چکی ہے ان میں ٹرالر، واٹر ٹینکراور دیگر ہیوی وہیکل شامل ہیں لیکن اس پرعمل درآمد نہ کرانے میں ٹریفک کے اہلکار خود ہی ملوث ہوتے ہیں۔ کراچی کے باسی جہاں بدامنی، لوٹ مار، اور لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں وہیں پابندی کے باوجود دن کے اوقات میں سڑکوں پر دندناتے ہیوی ٹریفک سے بھی نالاں ہیں جس کے باعث ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ ہے اورانسانی جانوں کیلئے بھی شدید خطرہ ہے۔
اہم شاہراہوں پردن کے اوقات میں بھی ہیوی ٹریفک کی آمدورفت سے حادثات اور ٹریفک کا بدترین جام ہو جانا معمول بن چکا ہے، اس صورتحال پر شہری حکومت سندھ کی جانب سے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی قدم کے منتظرہیں۔
کراچی کے نئے ٹریفک پلان میں ہیوی ٹریفک پر پابندی تو لگائی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہوتا یا پہلے کی طرح بڑی گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات ٹریفک پولیس اہلکار کو نذرانہ دے کر با آسانی دن کے اوقات میں بھی مٹر گشت کریں گے۔
ایک اور کارنامہ بھی ان ہی ڈی آئی جی کے ذمہ ہے، موصوف نے ڈرائیونگ لائسنس پر یک دم بغیر تاریخ جاری کیے دو سے تین ڈرائیورز گرفتارکرکے شہر بھر میں خوف کی کیفیت پیدا کردی تھی جس کے بعد اگلے ہی روز سے شہربھر کی تمام ڈرائیونگ لائسنس برانچز پر اس قدر ہجوم لگ گیا کہ فارم ختم ہوگئے۔بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد سے سڑک بند ہوگئی اور جہاں جہاں برانچز تھیں اس علاقے میں شدید ٹریفک جام ہوگیا، میڈیا نے لوگوں کے اس مسئلے کو اجاگر کیا تواعلیٰ حکام کے برہم ہونے پر ڈی آئی جی کو لائسنس کے اجراء میں توسیع کا اعلان کرنا پڑا لیکن بالآخر چند روز تک خوف و ہراس اور پکڑ دھکڑ کی کیفیت پیدا کرنے کے بعد لائسنس کا معاملہ بھی گرد میں دب گیا۔
ایک مشہور مقولہ ہے کہ کیا تو نے زمین کے کام مکمل کرلیے جو آسمانوں کی خبر گیری شروع کردی؟؟
کیا ڈی آئی جی ٹریفک نے اپنے دیگرتمام قوانین پر عمل درآمد کرالیا؟؟ کیا گاڑیوں نے دھواں چھوڑنا بند کردیا؟؟ کیا پریشر ہارن کا خاتمہ ہوگیا؟؟ کیا مسافروں نے بسوں کی چھتوں پر بیٹھنا چھوڑ دیا؟؟ کیا کراچی کے شہریوں کو بس اسٹاپ پر اپنی مطلوبہ پبلک ٹرانسپورٹ بر وقت مل جاتی ہے ؟ کیا بسیں مکمل فٹنس کے بعد سڑکوں پر آرہی ہیں؟؟ کیا لوڈنگ گاڑیاں محفوظ طریقے سے سامان کی نقل و حرکت میں مصروف ہیں؟ کیا ان تمام مسائل سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق نہیں؟؟
ایک صرف ہیلمٹ نہ ہونا ہی انسانی جان کے لیے اتنا شدید خطرے کا سبب بنا ہوا ہے کہ اسے فروخت کرنے اور لازم قرار دینے کے لیے زمین کے تمام کام چھوڑ کر آسمانوں کی خبری گیری شروع کردی جائے؟