کچھ لوگ دنیا میں آتے ہی نام کمانے کے لئے ہیں اور جس گھر میں آنکھ کھولتے ہیں وہاں سونے کے چمچوں کی بھرمار ہوتی ہے پر ایسے لوگ مشکلات کا مقابلہ بڑی مشکل سے کرتے ہیں جب مصائب میں گھرتے ہیں تو ہمت ہار جاتے ہیں اور یہی شکست ان پر حاوی ہوجاتی ہے پھر ایسے لوگ مایوسیوں سے نہیں نکل پاتے اور بعض اوقات زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں ان میں شاید ایک نام پاکستان کے سابق سپر اسٹاراپنے وقت کا بڑااداکارفلمی صنعت کی جان وحید مراد بھی تھا جسے مرحوم لکھتے ہوئے بڑی تکلیف ہوتی ہے مگر ہم سب کو اس ذات کی طرف لوٹنا ہے وحید مراد مرحوم نے پاکستان فلم انڈسٹری پر تقریباًبغیر کسی رکاوٹ کے20سال بہت کامیابی سے گزارے جو فلم کیلئے کبھی ہارٹ کیک ہوا کرتا تھا اب اگر ایسے انسان کو یہ کہہ کر فلمی صنعت میں نظر انداز کیا جائے کہ آپ اب ہیرو آنے کے قابل نہیں وحید مراد کے پرستاروں سے معذرت کے ساتھ جب وحید مراد کا انتقال ہوا تو وہ 45سال کے تھے اب ایسا شخص جو ہیرووالی خوبصورتی برقرار نہ رکھ سکا ہوں اور پھر عمر رسیدہ بھی ہوتو ایسے میں فنکار کو حالات سے سمجھوتہ کرلینا چاہئے کہ بڑھاپے کی عمر توہین ہوتی وہاں بچپن اور جوانی کی محدود عمریں ہوتی ہیں وحید مراد ایک کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد چہرے پر ٹانکے آنے کے بعد بھی ان کی ایک آنکھ متاثر ہوئی تھی مگر وہ پھر بھی ”وحید مراد خواتین میں بہت مقبول تھے“۔
ہیرو آنا چاہتے تھے گلوکاراور شاعر جمیل علوی عرف چنوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایورنیو کے فوارے پرگھنٹوں کھڑے رہا کرتے تھے کہ شاید کوئی پروڈیوسر انہیں سائن کرے مگر ایسا نہیں ہوا کہ شوبزنس میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے شاعر جمیل علوی عرف چنوںنے وحیدکو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ذاتی فلم بنالیں پر اس میں ہیرو آجائیں اور یوں انھوں نے فلم ہیرو بنائی وہ ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی مگر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی وحید مراد روحانی طور پر اندر سے مرگئے تھے اور شاید یہ غم ان کی موت کا سبب بنا جبکہ وحید مراد لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھے سانولی صورت خوبصورت نشیل آنکھیں خوش لباس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے ان کے چاہنے والے بہت تھے معروف شاعر اور گلوکار جمیل علوی ان کے عقیدت مند تھے وہ وحید مراد سے روحانی محبت کرتے تھے اور آج بھی وحید مراد کے نام سے افسردہ ہوجاتے ہیں اور نہ جانے کتنے لاکھوں پرستار انہیں یاد کرتے ہونگے لڑکیوں کے آئیڈیل اداکار تھے ان کی فلمیں خواتین میں بہت مقبول ہوتی تھیں ان کے والد نثار مراد مرحوم ایک بہت بڑے ڈسٹری بیوٹرتھے وحید مراد ایک باصلاحیت اداکار تھے انہوں نے اپنے والد نثار مرادسے کبھی بھی معاشی مدد نہیں لی ان کی فلمیں دیگر کئی معروف ڈسٹری بیوٹرحضرات نے ریلیز کیں اور خوب مال کمایا ان پر لکھنے کے لئے تو بہت کچھ ہے۔
بحیثیت فلم ساز کے انھوں نے ہدایت کار منوررشید کو لے کر دو فلمیں ”انسان بدتر ہے“اور دوسری فلم ”جب سے دیکھا ہے“، فلم انسان بدتر ہے بنائیں مگر اداکار کے طور پر پہلی مرتبہ ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم ”اولاد“اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اور اس فلم میں انھوں نے حبیب اور نیئر سلطانہ کے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا اپنے ذاتی ادارے فلم آر ٹی کی توسط سے فلم ”ہیرا اور پتھر“میں ذیبا کے ساتھ ہیرو کا کردار ادا کیا یہ بحیثیت ہیروکے ان کی پہلی فلم تھی یہ ایک کامیاب فلم تھی اس کے بعد فلم ”ارمان“بنائی اور یہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم تھی تیری نظر”احسان“بنائی یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی ان تینوں فلموں کے ہدایتکار پرویز ملک موسیقار سہیل رعنا جبکہ ہیروئن ذیبا تھیں اور پھر ذیبا نے ان کے ساتھ جن فلموں میں کام کیا ان میں عید مبارک،رشتہ سے پیار کا،انسانیت،جاگ اٹھا انسان،ماں باپ اور سپرہٹ فلم کینسر قابل ذکر ہیں کچھ ہیروئنیں اور ہدایت کاروں کے ساتھ انھوں نے بہت کامیاب فنی زندگی گزاری تمام تفصیلات تو نہیں تحریر میں لائی جاسکتی مگر کچھ تذکرہ ضرور کریں گے ہدایت کار رضا میر نے جب اپنی کامیاب فلم”ناگ منی“شروع کی تو تمام کاسٹ فائنل ہوگئی صروف ہیرو کا چناو باقی تھا کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ محمد علی کو ہیرو لیا جائے بیشتر اس بار پر بضد تھے کہ اس فلم میں ندیم کو لیا جائے پھر کراچی کے کچھ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے کمال کے لئے بھی ووٹ دیا اور آخر میں وحید مراد مرحوم اور رانی مرحومہ کو فلم میں ہیروئن اور ہیرو کے طور پر سائن کرلیا گیا فلم ریلیز ہوئی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اس فلم کے اس گیت نے دھوم مچادی تن تو پے واروںمن تو پے واروں،بگڑی بنادے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نورجہاں مرحومہ نے اس گیت میں کمال کو دیکھایا لوگ صرف اس گیت کی وجہ سے فلم دیکھتے تھے ۔
معروف ہدایتکار ایم اے رشید نے فلم ”دل میرا دھڑکن“ شمیم آرا کو لے کر بنائی یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی اور پھر ایم اے رشید نے فلم ”تم سلامت رہو“میں ممتاز اور محمد علی کو لے کر جبکہ آسیہ کے ساتھ وحید مراد کو لیا یہ بھی ایک خوبصورت فلم تھی اور اس فلم کے گیتوں نے بھی عوام الناس کو بہت متاثر کیا حسن طارق مرحوم کی فلم ”انجمن“اپنے وقت کی بہت بڑی فلم تھی جس کے مرکزی کرداردیبا اور رانی مرحومہ نے انجام دیئے اور وحید مراد مرحوم نے کمال کی ادکاری کرکے ثابت کردیا کہ وہ بھی ایک بڑا اداکار ہے خاص طور پرفلم کا یہ گیت ”آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے“یہ وہ فلم تھی جس میں سینما ہاوس صرف اور صرف خواتین سے بھرے رہتے تھے فلم ”گونج اٹھائی شہنائی“جس کے کردار محمد علی مرحوم اور وحید مراد مرحوم نے کئے اور اس میں وحید کی ہیروئن روحی بانو تھیںجو اس زمانے میں ٹی وی کی بڑی ہیروئن تھیں آجکل لاہور میں خاموشی سے زندگی کے دن گزار رہی ہیں جوان بیٹے کی موت نے روحی کو بڑے صدمے سے دوچار کیا ہے اللہ انھیں صبر دے ہدایت کار اسلم ڈار کی فلم ”وعدہ“بھی وحید کی ایک خوبصورت فلم تھی جس میں ان کے ساتھ آسیہ اور دیبا نے مرکزی کردارادا کئے اس فلم کا یہ گیت شایقین فلم کو آج بھی یاد ہوگا ”بھیگی بھیگی رات میں رم جھم کی برسات میں“ایک خوبصورت گیت تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کی فلم ”دوست اور دنیا“اپنے وقت کی بڑی فلم تھی اس میں وحید مراد کے ساتھ روزینہ اور عالیہ نے مرکزی کردار ادا کئے اور مہدی حسن کا یہ مقبول گیت جس نے دلوں میں ہلچل مچادی ”گا میرے دیوانے دل“اس گیت میں وحید نے لاجواب اداکاری کی تھی ویسے بھی ماضی کے بھارتی سپر اسٹارراجیش کھنہ نے کہا تھا کہ انڈو پاک میں وحید سے بہترگیت کوئی نہیں فلما سکتا شاید انھوں نے صحیح کہا تھا بڑے اسٹاروں کی فلم ”پھول ۔۔۔۔۔ گلشن کا“میں تین ہیرومحمد علی،وحید مراد اور ندیم شامل تھے تینوں پر علیحدہ علیحدہ گیت فلمبند ہوئے مگر جو پرفارمنس وحید مراد مرحوم نے فلم میں اپنی بھابھی ذیبا کے ساتھ اس گیت پر دی ”چھیڑ چھاڑکرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“وہ پرفارمنس محمد علی اور ندیم بھی نہ دے سکے کہ وحید مراد کا گیت فلمبند کروانے میں کوئی ثانی نہیں تھا وحید مراد نے پہلی مرتبہ اپنی ذاتی فلم ”مستانہ ماہی“بنائی اور فلمی صنعت پر چھاگئے اس فلم کی کامیابی کے بعداعجاز،یوسف خان اور کیفی سوچ میں پڑگئے کہ یہ ایک نیا اور اچھا اضافہ فلمی صنعت میں ہوا ہے فلم ”مستانہ ماہی“کا مرکزی کردارعالیہ نے کیا تھا اور پھر اس گیت پر عالیہ نے لاجواب پرفارمنس دے کر شایقین فلم کو حیرت میں ڈال دیا تھا ”سیونی میرا ماہی مینو ہیر بناوں آگیا“ نور جہاں مرحومہ نے بھی یہ گیت گا کر اپنے آپ کو امر کرلیا تھا اس فلم کی کامیابی کے بعد وحید مراد مرحوم نے کئی پنجابی فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کیاان میں سیونی میرا ماہی عشق میراناں، جوگی، سجن۔۔۔۔ اور اوکھا راج شامل ہیں،وحید مراد مرحوم نے بے شمار فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے مگر ان کی چند فلموں کے نام لکھ دیتے ہیں تاکہ ان کے پرستار ماضی کے جھونکوں میں جھانک کر دیکھیں تو انہیں وحید مراد مرحوم کی تصویر نظر آئے گی ہدایت کار ایس سلیمان کی بے وفا شباب۔۔۔۔ مرحوم کی تم ہی محبوب میرے، سہیلی،وعدے کی زنجیر،راستے کا پتھر، عزت، دیور بھابھی، ماں بیٹا،لیلیٰ مجنوں،دیدار،ناگ اور ناگن،ثریا بھوپالی،دلربا،نیند ہماری خواب تمھارے،افسانہ،جہاں تم وہاں ہم،دشمن،۔۔۔۔۔،رشتہ پیار کا،سالگرہ،نصیب اپنا اپنا،،ہونہار،زندگی ایک سفر ہے،جوش،خدا اور محبت،بدنام،زلزلہ،گن مین، صورت اور سیرت،حقیقت،،شیشے کا گھر،سمندر،پھر چاند نکلے گا،ڈاکٹر،میرے اپنے،بندھن،مامتا،محبوب میرا مستانہ،وقت،آواز،ترانہ،شمع،شبانہ،نذرانہ،بہن بھائی،مستانی محبوبہ، ملاقات اوربہاروں پھول برساو قابل ذکر ہیں وحید مراد مرحوم نے کراچی کی ایک صنعتکار ۔۔۔۔ دختر نیک اختر سلمی سے شادی کی ان کے دو بچے ہوئے ایک بیٹی عالیہ مراد جو ایک مقامی اخبار کے مالک اور ایک مقامی چینل چلارہے ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے عادل مراد نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی فلمی صنعت میں آئے مگر کامیاب نہ ہوسکے وحید مراد مرحوم نے زندگی کے آخری ایام جو بیماری مین تھے کرنل ایوب کے ہاں گزارے اور وہیں اللہ کو پیارے ہوگئے نومبر کے مہینہ جب بھی آتا ہے وحید مراد کے چاہنے والوں کو اداس کرجاتا ہے اللہ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔