The news is by your side.

وطن عزیز کے نامِ خط، جب اداسی عروج پرتھی

میں کون ہوں، کیوں ہوں وہ لکھنا چاہتی ہوں جو لکھتے لکھتے میرا قلم ساتھ نہیں دیتا یا پھر دل دماغ میرا ساتھ نہیں دیتے؟ آخر مجھے ایسی کون سی بات سمجھ آگئی ہے کہ وطن کے عشق میں جو مجھے ایسے جکڑے ہوئے ہے جیسے ایک پیڑ کو بیل لپٹے ہوئے ہو، میرے پاک وطن تیرے عشق اور عظمت کے آگے میرا قلب و روح جھکتے جا رہے ہیں، میری رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ تیرا پیار، جذبات، عظمت و صداقت، محبت اور جرأت بھی دوڑ رہی ہے، اے میرے پاک وطن میں کسی ایسی جگہ کھڑی ہوں نہیں پتہ مجھے میرا کون سا راستہ ہے کس طرف جاؤں کچھ نہیں پتہ ہے ایک عجیب الجھن میں ہوں میں کیا لکھوں عجیب بے یقینی سی کیفیت طاری ہے کبھی دل کو لگتا ہے کہ میں کچھ ایسا کر جاؤں گی کہ جس پر تمھارے پاک نام کے ساتھ میرا نام بھی سنہرے الفاظوں میں لکھا جائے گا، اور کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے وطن کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔

ایسا لگتا ہے جیسے میرے دل نے مایوسی کی چادر اوڑھ لی ہو اور وہ خواب میری آنکھوں سے نکل کر کہیں دور اندھیرے میں دھندھلا ہوتا جا رہا ہے مجھے چھوڑ کر پھر میری آنکھوں میں سوائے آنسو کے کچھ نہیں رہتا، اے میرے پاک وطن کس کس کی شکایتیں لکھوں میں تم کو کہ کون کون سے ستم ہوئے مجھ پہ کبھی جان کا ڈر دے کر اپنوں نے تیری خدمت سے روکا تو کبھی حالات نے ساتھ چھوڑا میرا، میری عمر کی لڑکیاں اپنے گھر اور دلہن بننے کے خواب دیکھا کرتی ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک بھی ہیں اور دعا ہے کہ ہر لڑکی خوش و آباد رہے پھر وہی بات لے آئی مجھ کو کہ میں ان لڑکیوں جیسی سوچ کی مالک کیوں نہیں؟ اے پاک وطن میری روح کو ایسی کیا سمجھ آگئی ہے تیری کہ تیرے دامن میں لپٹے خود کو محفوظ سمجھتی ہے، ہاں تو ہے کسی میں ہمت روک لے مجھ کو، ہاں قلم میرا ہتھیار ہے، اور سبز پرچم میری پہچان ہیں ، مجھے اپنی پرواہ ہوتی اگر تو آج سے نہ جانے کب میرے دل میں تیری محبت کی جڑیں یوں مضبوط نہ ہوتیں اور نہ آج میرا دل اور دماغ دونوں مجھ سے یہ سوال اپنی سوچ بیان کر پاؤں گی سب کو؟۔

عجیب الجھن میں رہتی ہوں جیسے میں اپنا پتہ بھول گئی ہوں اے وطن عزیز تیرے مسائل پر لکھنا اور لوگوں تک اپنی سوچ پہنچانا تیرے لئے بیداری پیدا کرنا ہی میرا کام ہے اپنا فرض سمجھتی ہوں اپنے کام کے ساتھ قلم کو بھی وقت دیتی ہوں۔ مجھ میں حوصلہ اعتبار ہوتے ہوئے بھی میرے حوصلے کو توڑا گیا جیسے پتھر توڑے جاتے ہیں، پر کیا کروں میرا حوصلہ بھی ایک ایسا پہاڑ ہے جو کبھی نہ ٹوٹتا ہے اور نہ کبھی اپنی جگہ سے ہلا ہے، ہاں مگر توڑنے والوں نے خوب طاقت آزمائی ہے، اے عظیم وطن تم خود ایک تحفہ ہو ہمارے لئے جو ہمیں عظیم قائد کی دین ہے، جسے خدا نے مسلمانوں کے لئے تحفہ بنا کر بھیجا آج تیرے لوگ الگ الگ بکھر گئے ہیں نہ قائد کا فرمان یاد رہا نہ کوئی ایسی فکر و سوچ رکھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ کیا رکھا ہے پاکستان میں وہ سب یہ کہتے ہیں، اپنی اپنی دنیا بسائے بیٹھے ہیں دور ولایت میں، نہ پاکستانی ہوئے نہ ولایتی بس گوروں کو ہمیشہ ترجیح حاصل رہی ہے۔ اپنی سرزمین بھلا بیٹھے ہیں اور وہی سے بیٹھے وطن عزیز کی آن شان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں، اپنی جھوٹی کلامی جاری رکھتے ہیں، جو بے معنی ہے، میں کیسے بیان کروں اے وطن پھر بھی تیرے لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

یہاں سچ اکیلا ہو کر رہ گیاہے اور جھوٹ ایک ایسا تماشہ بن گیا ہے جس کے ارد گرد لوگ ہی لوگ نظر آئیں گے سچ اندھیرے میں دور کہیں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے اور ہر طرف روشنی ہی روشنی بکھر جائے، میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے اپنے قلم سے تیرے لوگوں تک سوچ یہ پہنچانا چاہتی ہوں پھر کہیں سے جھوٹ، بے ایمانی، فرقہ واریت جنہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے، نہیں جانتے ہم آج آزادی کیا ہے کیسے ملی ہے؟ اس کا کیا سبب تھا، بس سب اپنی اپنی قومیت، فرقہ ، ذات جیسی بیماری میں مبتلا ہیں، یہ بھی کوئی آزادی ہوئی بھلا، اے میرے پاک وطن پہلے تو صرف ہندؤں اور مسلمانوں کی جنگ تھی ، جس میں بے پناہ قربانیوں کے بعد ہم مسلمانوں کو میٹھا پھل ملا جس کا نام پاکستان ہے ہمیں ہماری پہچان ملی پر میرے عظیم وطن آج تم کو یہاں اتنی ذاتیں اور بھٹکے ہوئے سوچ کے لوگ ملے گیں جو بھول گئے ہیں کہ پاکستان انکی پہنچان ہے کس طرح سے یہ وطن بنا آج وہ ایک دھارے میں بہنے کے بجائے، قطرے قطرے میں بکھر گئے ہیں۔

میرے پاک وطن ہر وقت کوشش میں رہتی ہوں کہ شاید کچھ کر سکوں انکے دلوں اور فکر و سوچ تک پہنچ پاؤں، سچائی، ایمانداری، یگانگت، خلوص، پیار، اخوت، محبت آج ہماری بنیادی ضروریات کے ساتھ یہ چیزیں بھی ہماری ضرورت بن گئی ہیں۔ میرے عظیم وطن میں تیری محبت میں جیسے بھٹک سی گئی ہوں تیرے ارد گرد کے دشمنوں کو دیکھوں یا تیرے خلاف ہوتی سازشوں کو، تیرے مسائل بیان کروں اپنے قلم سے یا تیرے لوگوں کو پھر سے تیری طرف راغب کروں وطن کی محبت میں جیسے میں گرفتار ہوں دعا ہے کہ تیرے لوگ بھی محبت میں قومی ملّی جذبے کے دھارے میں بہنے لگ جائیں ایک طاقتور دریا کی طرح میرے پاک وطن میری آنکھوں کی روشنی میرے خون کا ایک ایک قطرہ تیرے لئے ہے اب اجازت چاہتی ہوں تکلیف تھی تو سوچا خط میں وہ سب لکھ دوں جو میرے دل میں تھا اور دماغ نے کہا لکھ دوں میری ڈائری کا ایک ایک صفحہ جن پہ تیری محبت کی لکھی تحریریں محفوظ ہیں وعدہ کرتی ہوں کہ وہ سب تحریریں اہل وطن تک پہنچا سکوں تاکہ پھر سے دوستی کرا پاؤں جو ایک دوسرے سے الگ اور کہیں دور نکل چکے ہیں جن کو پھر سے سمجھانا ہے۔

+ posts

رقیہ عباسی طالبہ ہیں، بلاگنگ کرتی ہیں اور پاکستانی معاشرے اورسیاست کا گہری نظر سے جائزہ لیتی ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں