The news is by your side.

میں اور پاکستان: وطن کی محبت میں دیوانی کا محبت نامہ

میری ڈائری سے کچھ اور نئی تحریریں جو میں وطن عزیز کے لوگوں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتی ہوں تاکہ سچا جذبہ اور محبت کا کارواں یوں چلتا رہے، آج بہت خوبصورت صبح تھی ہر طرف آسمان پر گھنے بادل چھائے ہوئے تھے یہ سردیوں کی صبح کی بات ہے جنوری کے مہینے کی، میرے بہن بھائی اپنے اسکول اور یونیورسٹی جانے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے اور پاپا (والد) بھی اپنے کام پر جانے کی تیاری میں مصروف تھے دراصل میری یونیورسٹی ایوننگ شفٹ  میں ہے تو ایک میں ہی مصروف نہیں تھی میں اپنی ماما کے ساتھ ناشتہ بنانے میں مدد کر رہی تھی ماما اور میں نے سب کو ناشتہ کروایااور پھر سب کو اپنی اپنی منزل کے لئے روانہ کیا۔ اس کے بعد میں بڑھنے بیٹھ گئی اپنی چائیے کا کپ لے کر ماما اپنے کاموں میں مصرف ہو گئیں، میں پڑھائی کے ساتھ اپنے وطن اور عزیز ہم وطنوں کے لئے لکھنا اپنا فرض سمجھتی ہوں جس کے ذریعے میں اپنی سوچ لوگوں تک پہنچا سکتی ہوں میری محبت کا چراغ وطن ہے جو میرا گھر میرا چمن میرا دیس ہے اور اس چراغ کی لو روشنی میری پہنچان ہے ہم سب کی پہچان ہے میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس کے اپنی تمام خوشیاں، دکھ، غم اپنی شکایتیں وطن کے نام کردی ہیں ہر ایک ورق میری ڈائری کا وطن کی محبت سے بھرا ہے، میرا تعلق کسی جاگیردار گھرانے سے نہیں اور نہ ہی مجھے کسی سفارش کی ضرورت ہے، میں اپنی مدد آپ کے اور اپنی محنت سے آگے بڑھی تھی اور اللہ پاک کے بھروسے اپنے کام کرتی ہوں۔

مجھ میں یہ سب شعور میرے والد نے پیدا کیا ہے میری اس سوچ کے مالک میرے والد ہیں، پتہ ہی نہیں چلا دوپہر کا وقت ہو گیا اور میں اپنی یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگی میری کلاسز 03:30 بجے  سے شروع ہو جاتی ہیں ‘ میں اپنے بیگ  میں پڑھائی کے کتابوں کے ساتھ اپنی ڈائری بھی ساتھ رکھتی ہوں اور جب موقع ملتا تو ہر وہ جملہ پیار خلوص محبت کے سارے وہ الفاظ قید کر لیتی اپنی ڈائری میں ساتھ جو منظر ہوتا وہ بھی لکھ دیتی ہوں تاکہ میں فارغ وقت میں اپنی ڈائری پڑھتی ہوں تو وقت اور منظر کا احساس ہوتا۔ میں ماما کو اللہ حافظ کہہ کر گھر سے روانہ ہوگئی یونیورسٹی کے لئے جیسا کہ میں نے بتایا کہ آج آسماں بادلوں سے گھرا ہوا تھا اور یہ سردیوں کے دنوں کی بات ہے ماما ہمیشہ کہتی ہیں کہ تم کو شام ہوجاتی ہے گھر آتے آتے اور تب تک سردی بڑھ جاتی ہے بیگ میں شال بھی رکھ لو یا سوئیٹر، ماما کو پتہ ہے کہ میں بہت ضدی ہوں شال یا سوئیٹر رکھوں گی تو ضرور مگر پہنوں گی نہیں۔

کراچی یونیورسٹی  سے تعلیم حاصل کرنے والے یہ  بات جانتے ہیں کہ یہاں  چلنا بہت پڑتا ہے آخر میں جا پہنچی اپنے ڈپارٹمنٹ روزانہ تین لیکچرز ہوتے  ہیں آج صرف دو لیکچرز ہوئے، میرے تمام دوست کیفے ٹیریا  کو چلے اور مجھے بھی چلنے کو کہا میں نے کہا چلتی ہوں پر واپس آجاؤں گی اپنی چائے لیے دوستوں نے موسم اور چائے کا مزہ لینے کو مجھے بہت اسرار کیا پر کیا کروں میرے ذہن میں جو چل رہا تھا وہ لکھنا ضروری تھا ورنہ پڑھائی اور روز مرہ کے کام میرے خیالات اور موضوع کو تبدیل کر دیتے خیر میں اپنی چائے پیپر کپ میں لئے اپنی جگہ آ کر بیٹھی جہاں میں اکثر بیٹھ کے لکھتی ہوں۔

درختوں کے پاس گھاس پر سوکھے سوکھے بکھرے ہوئے پتے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں یہ منظر جیسے مجھے لکھنے پر اور زیادہ مجبور کر رہا تھا اور وہ پیلے پھولوں والا درخت جس کے ساتھ روزانہ لیکچر کے بعد کا وقت گزرتا میں چپلیں اتار کر گھاس پر گرے پتوں پر اپنے پاؤں دیتی اور وہ پیلے پیلے پھول مجھ پہ اور میری ڈائری پر گرتے رہتے گھر جانے دل ہی نہیں کرتا میں بھی لکھنے میں گم رہتی جب تک ماما کا فون نہیں آتا ماما کو اندازہ ہو جاتا میرے دیر سے گھر آنے کی وجہ پوچھتی میں کہتی ماما آج سر نے لیکچر بڑھا دیا تھا، اور وہ غصہ کر کے میرا جھوٹ پکڑ لیتی کے آج بھی میں پیلے پھولوں والے درخت کے پاس بیٹھی ہوں میں پوچھتی آپ کو کیسے پتہ چلا تو کہتی کہ دیکھو اپنے بالوں میں چور کی داڑھی میں تنکا ہو تا ہے پر تمھارے بالوں میں پیلے پھول واقعی کسی نے سچ کہا ہے ماں باپ کے آگے ان کا بچہ بچہ ہی رہتا ہے میں نے کہا اچھا سنے تو آئیں دیکھیں میں نے کیا لکھا ہے وطن کے نام وہ کہتی بعد میں پڑھ لونگی ابھی بہت کام ہیں میں اپنی والدہ کو دیکھتی اور دل ہی دل میں کہتی کہ کیسے وہ اپنے گھر اور بچوں میں مصروف رہتی ہیں  سب کو دیکھتی ہیں‘  میں بھی خود کو مصروف رکھتی اپنی پڑھائی اور وطن جو میرا گھر ہے اسے سنوارنے میں قلم سے اپنے وطن کی مشکلیں اور مسائل بیان کرتی مجھے اپنے کسان، مزدور، استاد، طالب علم، نوجوانوں سب کو یہ سمجھانا ہے وطن کی محبت اور یکانگت کا شعور دینا ہے آج جو وطن کو تکلیفیں ہیں سب سمجھانی ہیں بتانی ہیں یہ موقع آخری ہے مجھے اپنوں کو جگانا ہے، نوجوان کو تعلیم سے آگاہ کرنا ہے ان کے ہاتھوں میں قلم مجھے دیکھنا ہے، یہی قائد اعظم کی خواہش تھی کوئی میرے نوجوان کی سوچ نہ بدلے کوئی ان کے ہاتھ میں قلم کے بجائے بندوق، اسلحہ نہ تھما دے مجھے اس سبز پرچم تلے سب کو سمجھانا ہے پھر مجھے سب کو بیدار کرنا ہے۔

میرے پاس وہ موتی ہیں جن میں سندھ بھی ہے، پنجاب بھی ہے ، سرحد سے لے کر بلوچستان بھی ہے،  اور یہاں  جو دہشت گردی ہے  اور اس میں ملوث بیرونی طاقتیں ‘ وہ بیرونی ہاتھ مجھے توڑنا ہے ضرب عضب لگانی ہے ایسی ضرب جو پھر نا اٹھے کبھی دشمن کا ہاتھ میری طاقت میری فوج ہے جو عوام کے دلوں کی آواز ہے وہ آواز دنیا تک پہنچانی ہے آج پاکستان جو جنگ لڑ رہا ہے دہشتگردی کا جو سامنا ہے اس جنگ کو پاکستان جیتے گا میں لکھنے میں گم تھی کے اچانک ماما کی آواز آئی کھانا کھا لو آ کے میں نے کہا ماما آتی ہوں بس چند الفاظ سمیٹ لو ں۔

وطن سے محبت تو ایسی ہے جیسے میرے جسم میں روح اور میری سانس لینا جب جان باقی ہے اپنے قلم سے اپنی محبت بیان کرتی رہوں گی میری مٹی کی خوشبو اور سرسبز پرچم وطن کی خوبصورتی میری پہنچان ہے اس مٹی میں خون ہے شہیدوں کا آ لو یو پاکستان۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں