سوشل میڈیا پر طبل جنگ بج چکا اور اب دونوں جانب سے تیاریاں جاری ہیں ‘ سوشل میڈیا کی نسبت قدرے ذمہ دار ذرائع ابلاغ بھی ہوا کے رخ پر سفر کرنے کو ہیترجیح دے رہے ہیں اور آج کل پاکستان اور بھارت دونوں کے نیوز چینل ہی چوونڈہ کے میدان بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا بھارتی افواج کی پیشہ ورانہ قابلیتوں کی دھجیاں اڑا رہا ہے تو دوسری جانب بھارتی میڈیا دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی افواج کامیابی کے جھنڈے گاڑھ چکی ہیں۔
بات شروع ہوئی کشمیر میں برہان وانی کی شہادت سے کہ جس کی اندوہناک موت نے کشمیری جوانوں میں آزادی کی ایک نئی روح پھونک دی اور بھارتی مظالم ایک مرتبہ پھر اپنے عروج پر پہنچ گئے ‘ ایسے میں کوئٹہ میں ہونے والاآٹھ اگست کا دھماکہ اور 15 اگست کو بھارتی وزیراعظم کا بلوچستان کو لے کر بیان اور اسکے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ملٹری ہیڈ کوارٹر پر حملہ‘ یہ سب حالات وواقعات اتنی تیزی سے پیش آئے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں بسنے والے افراد الزائمر یعنی کہ خود سے متعلق واقعات کو بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہیں جبھی کسی کو شائد یاد بھی نہیں کہ اب سے کچھ عرصہ دس سال قبل جب کہ پاکستان میں آرمی چیف جنرل مشرف کا ستارہ چمک رہا تھا اور بھارت میں من موہن سنگھ مسندِاقتدار پر براجمان ہوئے تھے تو تیزی سے بہتری کی راہ پر بڑھتے ہوئے پاک بھارت تعلقات یک دم خراب ہوئے اور پھر نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ دونوں ممالک نے سرحدوں پرکثیر تعداد میں فوجیں تعینا ت کردیں تھیں اور طرفین کا میڈیا غزوہ ہند اور مہابھارت جیسے نعرے جنگی کمپئین کے طور پراستعمال کررہا تھا۔
وقت گزرا اور صورتحال معمول پر آئی اور پھر نواز شریف اور نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو ایسا لگا کہ دونوں ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہیں۔ خیر سگالی کے جذبات اور تحفے تحائف کا تبادلہ گویا معمول کی بات تھی کہ پاکستان میں سی پیک کی تعمیر کا شور اٹھا اور ادھر بھارت سمیت کئی ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھا جن کی اقتصادی دوکان سی پیک کی بدولت خسارے میں جانے والی ہے۔ ایسے میں دونوں جانب معاملات خراب کرانے والوں نے چنگاریوں کو ہوا دی اور آج جنگ کے شعلے کم از کم میڈیا اور سوشل میڈیا کی حد تک تو خوب بھڑک رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان نفسیاتی اعتبار سے بھارت پر میدانِ جنگ میں ہمیشہ برتری رکھتا آیا ہے جس کی وجہ شاید تقسیم کے قبل کے مغلوں اور خانوں کی بہادری کی داستانیں ہیں یا گجروں اور جاٹو ں کا وہ نرالا سلوک جو کہ وہ سکندر اعظم سے آج تک ہر حملہ آور کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔ کچھ غیر جانبدار ذرائع ابلاغ بھی بھارت کو اعداد وشمار کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کا ایڈونچر بھارت کی ترقی کرتی معیشت کے حق میں نہیں ہے لہذا بھارت کو اس جنگی جنون سے احتراز برتنا چاہیے۔ وقت گزر جائے گا اور امید یہ ہے کہ دونوں جانب کے تعزیے ٹھنڈے ہوجائیں گے لیکن اپنے پیچھے ایک سوال ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا اور اس سوال کا جواب شاید تاریخ کے اوراق میں جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو رسوا کرکے رکھ دے۔
بھارت ہمارا ہمسایہ ہے چاہے وہ ہمیں پسند نہ کرے یا ہم اسے لیکن رہنا ہمیں ساتھ ہی ہے نہ وہ اپنی سرحد اٹھا کر کہیں لے جاسکتے ہیں نہ ہم پڑوسی بدل سکتے ہیں اور جب ہم ایسا نہیں کرسکتے تو تاریخ کبھی نہ کبھی یہ سوال پوچھے گی کہ اے جنگی جنون میں مبتلا بڑی آبادی والے جن۔۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ تو اور تیرا پڑوسی یکساں غربت سے دوچار تھے اور اس پر افتاد یہ کہ پاکستان دہشت گردی کے عذاب کے خلاف بھی نبرد آزما تھا تو ایسے میں کیا پڑی تھی کہ اپنے اور پاکستان کے ڈیڑھ ارب کے قریب انسان جو کہ دنیا کی آباد ی کا ایک چوتھائی حصہ بن جاتے ہیں ‘ اس نئی جنگ کی مصیبت میں ڈالو۔ بھارت کو زعم ہے کہ وہ اس خطے کی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے تو ’جنابِ سپر ‘، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عظیم طاقت اپنے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی لاتی ہے ‘ اگر آپ رقبے آبادی اور فوجی اعتبار سے ہم سے بڑے ہیں تو یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں اور خطے کا امن داؤ پر نہ لگائیں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف 16 سال سے نبرد آزما ہے اور اس مشکل نفسیاتی جنگ میں 85 ہزار سے زائد سویلین شہریوں اور فوجی جوانوں کے لاشے اٹھا چکا اور اب پاکستان اپنی تاریخ کے اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ہمارے پاس کھونے کو زیادہ کچھ نہیں لیکن بھارت نے اتنے عرصے میں اگرکچھ بھی تعمیر کیا ہے کیا وہ اسکا نقصان برداشت کرنے کی ہمت اور سکت رکھتا ہے‘ اگر ہاں تو پھر آئیے دو دو ہاتھ ہوجائیں ، دیر کیسی لیکن اگر نہیں تو ہوش کے ناخن لے اوریوں بچوں کی طرح جھگڑنا چھوڑدے۔
مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے دونوں ممالک کے درمیان انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور اس کا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے کشمیریوں کی رائے کا احترام ‘ بھارت وادی میں کتنی ہی فوج تعینا ت کردے لیکن اگر کشمیری بھارتی تسلط کو پسند نہیں کرتےتو وہ زبردستی ان کی رائے تبدیل نہیں کراسکتا اور یہی سے یہ معاملہ پاکستان کا داخلی معاملہ بن جاتا ہے اور جیسے کسی کو بھی اپنے داخلی معاملات میں مداخلت پسند نہیں ایسے ہی پاکستان بھی کشمیریوں کے معاملے میں مداخلت کو پسند نہیں کررہا۔ بھارت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جو قوم دہشت گردوں کی مخالفت میں پچاسی ہزار لاشے اٹھا سکتی ہے وہ آپ سےبھی لڑکر تمام معاملات سے سرخرو ہوکر باہر آئےگی لیکن آپ کیا کریں گے؟ آپ کی ریاستوں میں جو علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں ‘ کیا جنگ کی صورت میں وہ زور نہیں پکڑ جائیں گی اور یہ بات تو نئی دہلی میں رہنےوالا بچہ بھی سمجھتا ہوگا کہ پاکستان سے جنگ کوئی سستا سودا نہیں۔
دونوں جانب سبز اور گیروے رنگ کے پرچم بلند ہیں اور اگر آپ چاہتےہیں کہ دونوں جانب کے کروڑوں انسان جنگ کا ایندھن نہ بنیں تو حقائق کی دنیا میں رہیں ۔ یاد رکھیں کہ سبز پرچموں کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ یہ ایک عالمگیر مذہب کے ماننے والوں کی وحدت کا نشان ہے اور اس پرچم کے ماننے والے رضاکارانہ طور پر بھی آپ کے خلاف صف آرا ہوسکتے ہیں۔ باقی آپ کی مرضی جنگ ہوگی تو ہم آپ کو سبز پرچموں کے سائے میں کہیں صف آرا ملیں گے لیکن اگر آپ عقل مندی کا مظاہرہ کریں گے تو یہی بہترہوگا کہ سبز اور گیروے پرچم کی لڑائی میں صرف اور صرف دونوں جانب کے کروڑوں بے گناہ انسانوں کے سروں کی فصل ہی کاشت ہوگی اور کچھ بھی نہیں۔