The news is by your side.

عزیر بلوچ گینگسٹر یا غدار

 کالعدم لیاری امن کمیٹی اور گینگ وار کا سرغنہ عزیر بلوچ آج کل ایک بار پھرہرطرف میڈیا میں چھایا ہوا ہے، اس بار عزیر بلوچ کے مقامی سیاست دانوں کے کہنے پر ٹارگٹ کلنگ  یا ان سے رابطوں کے چرچے نہیں بلکہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را اور ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی سے روابط کی شہہ سرخیاں بریکنگ نیوز میں دکھائی جارہی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق عزیر بلوچ کے  ملک دشمن ایجنسیوں سے تعلقات ہونے کے ثبوت سامنے آنے پر فوج نے پاکستان آرمی ایکٹ 1923 کے تحت اسے اپنی تحویل میں لے لیاہے۔ عزیر بلوچ پرحساس ملکی معلومات غیر ملکی ایجنٹوں کو دینے کےالزام کے علاوہ نادرا آفس لیاری سے غیرملکیوں کو زبردستی شناختی دستاویزات بنواکر دینے کا الزام بھی ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق عزیر بلوچ نے دوران تفتیش اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی را سمیت ایک اور پڑوسی ملک ایران کی ایجنسی سے بھی رابطہ میں تھا ۔ اس نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ فوجی عدالت کی جانب سے سزائےموت سنائے گئے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو سے بھی رابطے میں تھا۔جس کے بعد عزیر بلوچ کو فوجی تحویل میں لیکر اب اس کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار کو دو سو سے زائد مقدمات کا سامنا ہے، جن میں اپنے باپ ماما فیضو کے قاتل اور مخالف گینگ کے سرغنہ ارشد پپو کا قتل، ایس ایچ او انسپکٹر فواد خان قتل کیس، رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے قتل، حساس ادارے کے اہلکاروں کا قتل، سیاسی مخالفین کو اپنے کارندوں سے قتل کرواکر لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے جیسے مقدمات شامل ہیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر بلوچ قوم پرست تنظیموں کے علاوہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی جیسی تنظیموں کو بھی لیاری میں عزیر بلوچ کی حمایت اورمدد حاصل رہی ہے۔ حساس اداروں اور انسدادِ دہشتگردی کے ذمہ دار حلقوں کو شک ہے کہ عزیر بلوچ پاکستان دشمن طاقتوں کی مدد سے لیاری کے ذریعے کراچی اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا اور کراچی بھر سے اغوأ برائے تاوان ، بھتہ اور منشیات سے حاصل ہونے والی رقم کو لیاری میں گینگ وار کی مضبوطی کے زریعے ریاست کے خلاف استعمال کررہاتھا۔

واضح رہے کہ 30 جنوری 2016 ءکو سندھ رینجرز نے کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو تحویل میں لے لیا تھا۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری سے متعلق ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ عزیر بلوچ کو کراچی میں داخل ہوتے ہوئے مضافاتی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔

کچھ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ عرب امارات بارڈر پر مسقط سے آتے ہوئے انٹرپول کے ہاتھوں کالعدم امن کمیٹی کے سربراہ اور لیاری گینگ وار کے اہم کردار عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد ایف آئی اے (پاکستانی وفاقی ادارہ) اور ایرانی سی آئی ڈی دونوں کوشش کررہی تھیں کہ عزیر بلوچ کی کسٹڈی مل جائے۔ پاکستانی حکومت کو متعدد مقدمات میں مطلوب عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لئے کراچی پولیس نے بذریعہ ایف آئی اے انٹرپول کو درخواست کی تھی کہ ریڈ وارنٹ جاری کرکے عزیر بلوچ کو گرفتار کیا جائے تاکہ اسے قانون کے کٹہرے میں پیش کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ تاج محمد عرف تاجو استاد کی گرفتاری کے لئے بھی ایف آئی اے نے انٹرپول کو خط لکھاتھا۔ جس پر انٹرپول نے پاکستانی وفاقی ادارے کی درخواست پر دونوں مطلوب ملزمان کی گرفتاری کی غرض سے ریڈ وارنٹ کا اجرأ بھی کیا اور عزیر بلوچ کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ھے۔

عبدالغنی کے نام سے ایرانی پاسپورٹ پر سفر کرنے والے لیاری گینگسٹر کو جب انٹرپول اور مقامی پولیس نے حراست میں لیا تو اس نے پہلے تو اپنے آپکو عبدالغنی ثابت کرنے پر زور دیا  ( اس کی خالہ کا بیٹا تھا جس کے نام سے دستاویزات ایرانی خفیہ اداروں نے بناکر دی تھیں) لیکن جب اس کے سامنے ناقابل تردید ثبوت رکھے گئے تو مجبوراً عزیر بلوچ نے ہار مانتے ہوئے اپنے آپ کو عزیر بلوچ مان لیا اور تعاون کی یقین دھانی کراتے ہوئے حکام سے درخواست کی کہ اسے گرفتار کرنے کے بجائے واپس مسقط یا ایرانی پاسپورٹ کی بنیاد پر ایران ڈی پورٹ کردیاجائے یا چند فون کرنے دیے جائیں تو وہ مکمل تعاون کرے گا۔ لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی اور گرفتار کرکے انٹرپول کے دفتر واقع دبئی منتقل کردیا۔

انٹیلی جنس ذرائع بتاتے ہیں انٹرپول کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پاکستانی تحقیقاتی ادارہ اس کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا تھا لیکن وہیں حیرت انگیز طور پر ایرانی خفیہ ادارے اپنی  پوری کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح عزیر بلوچ کو ان کی  تحویل میں دیا جائے اور اس سلسلے میں وہ عزیر بلوچ کے زیرِاستعمال ایرانی پاسپورٹ کو جواز بنارہے تھے۔

مجھے یاد ہے جب میں ایس ایس پی لیاری تعینات تھا اس وقت عزیر بلوچ جیل میں بند تھا اور اس کی اس وقت کوئی اوقات نہیں تھی۔ لیاری گینگ وار کا ایک گروپ رحمان ڈکیت اور دوسرا ارشد پپو کی سربراہی میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ اس وقت بھی کوئی لیاری گینگسٹر اگر پولیس یا اپنے مخالفین سے بچنے کیلئے جان بچا کر بھاگتا تھا تو اس کی منزل ایرانی بلوچستان ہی ہوتی تھی۔ بعض گینگسٹرز عمان، مسقط، کویت یا دیگر خلیجی ریاتوں کا رخ بھی کرتے تھے۔ لیاری کے بہت سے بلوچ خاندان پاکستان کے علاوہ ان ریاستوں کی دوہری شہریت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں آنے جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

رحمان ڈکیت کا قریبی ساتھی زاہد بلوچ لیاری گینگ وار اور بلوچ علحیدگی پسندوں کے درمیان پہلا رابطہ تھا۔ زاہد بلوچ بی ایس او نامی طلباء تنظیم کے پلیٹ فارم سے کراچی کے بلوچ طلباء اور دیگر نوجوانوں کی علحیدگی پسندانہ ذہن سازی کررہا تھا۔ کراچی کی بلوچ آبادیوں میں رحمان ڈکیت کی بنائی ہوئی پہلی امن کمیٹی کا اصل منصوبہ ساز بھی زاہد بلوچ ہی تھا۔ یہی وقت تھا جب رحمان ڈکیت کو ارشد پپو کیخلاف کچھ بلوچ کالعدم علحیدگی پسند کمانڈروں کی مدد حاصل ہوئی اور انہوں نے زاہد بلوچ کے ذریعے لیاری میں جدید اسلحہ کی بھاری کھیپ بھجوائی۔

زاہد بلوچ کا انجام بڑا ہی پراسرار انداز میں ہوا ، اس کی لاش لیاقت آباد کے علاقے سے ملی جس کا الزام ارشد پپو اور ایم کیوایم کے عسکری ونگ پر لگا کیونکہ اس وقت ارشد پپو ایم کیو ایم کے عسکری ونگ سے تعلقات استوار کرچکا تھا۔ اگر زاہد بلوچ نہ مارا جاتا تو اس کی پلاننگ تھی کہ بلوچ مزاحمتی تحریک کا مرکز لیاری بنایا جائے اور رحمان ڈکیت کو پیپلز پارٹی یا کسی بھی وفاقی پارٹی کے بجائے علحیدگی پسند تنظیم کی جانب مائل کیا جائے۔ میری لیاری  تعیناتی کے دوران  گینگسٹرز کیخلاف کاروائی کے دوران بھی متعدد بار ایسے لوگ پکڑے گئے جن کا تعلق ایرانی بلوچستان سے تھا۔ حسین ایرانی نامی گینگسٹر جو کہ لیاری میں بھی اپنا گینگ چلاتا رہا ہے اس نے بھی اپنی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایرانی سی آئی ڈی کے کہنے پر ایران کو مطلوب ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو اشخاص کو گلبرگ کے علاقے میں قتل کیا تھا۔ اسی طرح چند سال قبل کراچی بلدیہ ٹاؤن مواچھ گوٹھ میں ایرانی حکومت کو مطلوب ایک شخص کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ اس کے میزبان رشتے داروں سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں  نے قتل کا زمہ دار ایرانی سی آئی ڈی کو بتایا، لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوئی ایدھی ہوم سہراب گوٹھ سے اس کی لاش لینے کیلئے مقتول کی ماں اور دو بھائی بلوچستان سے آئے تو ان کو بھی ایدھی سینٹر کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا اور تینوں بیٹوں کی لاشیں لیجانے کے لیے اکیلی ان کی ماں بچی تھی۔ ان واقعات کا کُھرا بھی عزیر بلوچ کی طرف جاتاہے۔

اقبال عرف بابو ڈکیت ، رحمان ڈکیت ، ارشد پپو، مجید اسپیڈ، حسین ایرانی، غفار ذکری، سے لیکر بابا لاڈلہ یا عزیر بلوچ تک سب نے پاک ایران سرحدکے دونوں اطراف کے اہم قبائیلی سرداروں سے تعلقات قائم کررکھے تھے اور قانون سے بھاگ کران کی مدد سے روپوشی کاٹتے رہے تھے۔ عزیر بلوچ نے لیاری کے بعد پورے کراچی پر مکمل کنٹرول کی ہوس میں اپنی طاقت میں اضافے کی غرض سے ان سرداروں سے جو قریبی تعلقات بنائے تھے وہی تعلقات اسے  ہندوستانی خفیہ ایجنسی را سے روشناس کرانے کا سبب بنے۔ عزیر بلوچ کی انٹرپول کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد یہی بااثر قبائلی سردار تھے جو اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایرانی اور ہندوستانی خفیہ اداروں کو زور دے رھے تھے کہ کسی بھی طرح عزیر بلوچ کی کسٹڈی حاصل کی جائے ورنہ پاکستانی ادارہ اگر اپنی تحویل میں لے لیتا ہے تو پھر عزیربلوچ کے لئے بچنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس طرح  ایرانی اور ہندوستانی خفیہ ادارے عزیربلوچ کے نیٹ ورک سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

ماضی میں اگرنظر دوڑائیں تو سابق وزیرِ داخلہ سندھ ذولفقار مرزا کی سرپرستی کی وجہ سے امن کمیٹی پیپلز پارٹی کا ایک ونگ تصور کیجاتی تھی لیکن
ذولفقار مرزا کے پیپلز پارٹی چھوڑنے اور سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان کے بعد عزیر بلوچ کی قیادت میں کام کرنے والی امن کمیٹی نے اپنے آپ کو لاوارث پاکر پیپلزپارٹی کی مرکزی اور مقامی قیادت سے ناراض ہوتے ہوئے میڈیا میں آکر اپنی قیادت پر شدید تنقید کی جس سے پیپلزپارٹی اور عزیر بلوچ کے راسے بالکل جدا ہوتے چلے گئے۔

پیپلز پارٹی کی ایک اہم شخصیت کو لیاری سے الیکشن کے لئے ٹکٹ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے عزیر بلوچ نے جب ٹی وی پر بیان دیا کہ اب لیاری سے پیپلزپارٹی کا خاتمہ ہوچکاھے اور ہم نے پیپلزپارٹی کا کوئی ٹھیکہ نھیں لیاہوا کہ جس کو ان کا دل کرے لیاری سے کھڑا کردیں اور ہم اس کو ووٹ دیں۔ اس بیان کے بعد حکومت کی جانب سے عزیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں کی زندہ یا مردہ گرفتاری پرخطیر انعامی رقوم مقرر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پولیس کے ذریعے لیاری آپریشن کروایاگیا جو کہ مکمل طور پر ناکام رہا اور دونوں فریقوں میں اختلافات روز بروز شدید تر ہوتے چلے گئے۔

ایم کیو ایم پہلے ہی لیاری امن کمیٹی کے خلاف سخت قانونی کاروائی کامطالبہ کرتی چلی آرہی تھی جبکہ کراچی کاتاجر اور کاروباری طبقہ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں لیاری امن کمیٹی کو ملوث قرار دیتا تھا اور اس سلسلے میں آئے روز احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جاتا رہا تھا۔

عزیر بلوچ پولیس اور رینجرز کے قابو تو آنھیں رہا تھا اب کچھ حلقوں نے نئی حکمت عملی اپنائی اور عزیر بلوچ اور اس کے دست راست بابا لاڈلہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بابا لاڈلہ کی سرپرستی شروع کردی اوراسے عزیر بلوچ کے مقابل لاکھڑا کیا۔ بابالاڈلہ نے اپنے اوپر ہونے والے ایک بم دھماکے کو بنیاد بناتے ہوئے عزیر بلوچ گروپ کو اس میں ملوث قراردیا اور جوابی کاروائی میں ظفربلوچ جو کہ عزیربلوچ کا سیاسی دست راست سمجھاجاتاتھا اس کا کام ’’اتار‘‘ دیا ۔ ظفر بلوچ کے مارے جانے کے بعد دونوں گروپ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔ لیاری میں دونوں گروپ مضبوط ہونے کے علاوہ جدید اورخطرناک اسلحے کا ذخیرہ بھی رکھتے تھے اوردونوں کے پاس لڑاکے بھی کم نھیں تھے۔ روزانہ متعدد افراد ہلاک و زخمی ہورہے تھے جہاں موقعہ ملتا مخالفین کوڈھیر کرڈالتے تھے لیاری ایک مرتبہ پر گرم ہوچکاتھا۔

اسی اثناء میں مقتدر حلقوں نے کراچی کے امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے پیشِ نظر اب آھنی ہاتھوں سے نمنٹنے کا فیصلہ کرلیا ۔ رینجرز کو غیر معمولی اختیارات کے ساتھ کراچی سے بدامنی ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ رینجرز اور پولیس نے کراچی آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے نئی پالیسی اپنائی اور اب گینگسٹرز کی گرفتاری کے بجائے ”پھڑکانے‘‘ والا کام شروع ہوچکا تھا. روزانہ پولیس مقابلے اور رینجرز سے جھڑپوں میں دہشت گرد اور گینگٹرز مارے جانے لگے۔  اس حکمتِ عملی  نے زبردست کام دکھایا اور بڑے بڑے نام اسکرین سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ عزیر بلوچ، بابا لاڈلہ اورغفار ذکری کراچی چھوڑ نامعلوم مقام سے اپنے اپنے گروپ کنٹرول کررہے تھے جبکہ میدان میں اب دوسرے درجے کی ٹیم اپنے اپنے گروپوں کی قوت اور موجودگی کا احساس دلانے کے لئے موجود تھی۔

عزیر بلوچ گروپ کے ارکان اسمبلی بھی اب لاتعلقی اختیار کرتے جارھے تھے اور ان کی ہرممکن کوشش تھی کہ گینگسٹرز سے دور ہوکر پیپلز پارٹی کے
قربت حاصل کرلیں تاکہ ان پربھی سیاسی چھاپ لگ جائے اور کچھ فوائد بھی حاصل ہوجائیں ان کو بھی سمجھ آچکا تھا کہ گیم بدل چکاھے۔عزیر بلوچ کی سرداری خاک ہونے کا وقت شروع ہوچکا تھا اورلیاری کے لوگوں نے یہ وقت بھی دیکھا جب افشانی گلی، کلاکوٹ، بغدادی، دھوبی گھاٹ، بہار کالونی، آٹھ چوک، چاکیواڑہ ، عیدو لین، پھول پتی، گل محمد لین اور دیگر علاقوں کی سڑکوں، کھمبوں، در و دیواروں عزیر بلوچ  کی تصاویر اتاردی گئیں۔

عزیر بلوچ پولیس و رینجرز کی ” ٹپکادینے والی حکمتِ عملی ” سے جان بچاکر پہلے ایران اور پھر مسقط  کی جانب بھاگ نکلا جبکہ اس کے دست راست تاجو استاد اوردیگر بھی دبئی پہنچ چکے تھے۔ عزیر بلوچ نے پیپلز پارٹی کے چند ارکان اسمبلی اوردیگر دوستوں کی مدد سے پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ اعلیٰ قیادت سے اپنے سابقہ رویئے اور ساری غلطیوں پر معافی مانگنے کی پیشکش کی اور آئندہ کے لئے پارٹی ڈسپلن کا پابند رہنے کا یقین بھی دلایا۔ لیکن اب سچ مچ ہوا بدل چکی تھی اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے سیاسی کارکن اور گینگسٹرزکے درمیان لکیر کھینچنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور پارٹی سے ”گند” صاف کرنے کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ”فری ہینڈ” دیدیا گیاتھا۔

عزیر بلوچ اور اس کی ٹیم کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوچکا تھا اس لئے قیادت کی طرف سے لال جھنڈی دکھادی گئی اور ملنے سے انکار کردیاگیا درمیان کے لوگوں کے ذریعے یہ پیغام بھی دیدیا گیا کہ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردو ورنہ جو سب کے ساتھ ہو رہاہے تمھارا حشر بھی وھی ہوگا۔عزیر بلوچ جو پہلے دبئی میں کھلے عام رہتاتھا اب اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ ریڈ وارنٹ کے اجرا کے بعد انٹرپول اسے گرفتار کرسکتی ہے اس لئے اب وہ مسقط چلاگیا گیا جبکہ استاد تاجو اور اس کے ساتھ کچھ دیگر ساتھی ساؤتھ افریقہ جانکلے‘ بابا لاڈلہ بھی ایران نکلنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔

ذرائع کے مطابق حساس اداروں نے عزیر بلوچ کو پکڑنے کے لئے باقاعدہ ایک جال بچھایا اور اس کو ایک دوست کے ذریعے رابطہ کرکے پیشکش کی گئی کہ اگر وہ دبئی آجائے تو ایک اہم شخصیت سے اس کی ملاقات کروائی جاسکتی ھے اور اب معاملات بہتر ہوسکتے ھیں جس پرعزیر بلوچ بخوشی تیار ہوگیا اوردبئی آنے کیلئے آمادگی ظاھر کردی۔  عزیر بلوچ مطمئن تھا کہ اس کے پاس اصلی ایرانی پاسپورٹ عبدالغنی نام سے ہے۔ اس لئے انٹرپول نے اگر کسی موقعہ پر ہاتھ ڈالا بھی تو اصلی ایرانی پاسپورٹ اسے بچانے کے کام آسکتا ہے لیکن یہ اس کی بھول تھی تمام انفارمیشن انٹرپول کے پاس پہلے سے ہی موجود تھی اور جیسے ہی عزیر بلوچ نے امارات کی حدود میں قدم رکھا اسے گرفتار کرلیاگیا۔

واضح رہے کہ عزیر بلوچ کی گرفتاری کے حوالے سے اب تک متنازع اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ایک سال سے زیادہ عرصے قبل اس کے بارے میں یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ اس کو انٹرپول نے دبئی سے گرفتار کیا  اور پھر پاکستانی حکام کے حوالے کردیا تھا۔ بعد میں وہ پراسرار طور پر کراچی کے نواح میں ظاہر ہوا اور سندھ رینجرز نے ایک چھاپہ مار کارروائی میں اس کو گرفتار کر لیا تھا۔

عزیر بلوچ سے تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مئی 2016ء میں انکشاف کیا تھا کہ عزیز بلوچ پڑوسی ملک ایران کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے کام کرتا رہا تھا۔ اس ٹیم نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے اس بدنام زمانہ لیڈر کے لیے ایک فوجی عدالت میں جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی اس رپورٹ پر سندھ پولیس ، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں کے دستخط تھے اور اس کو گذشتہ سال 29 مئی کو مزید ضروری کارروائی کے لیے محکمہ داخلہ کو بھیج دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوّث رہا تھا۔اس نے فوجی تنصیبات اور فوجی حکام کے بارے میں غیرملکی ایجنٹوں (ایرانی انٹیلی جنس کے افسروں) کو معلومات فراہم کی تھیں اور اس کی یہ حرکت آفیشیل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کی خلاف ورزی ہے۔ عزیر بلوچ مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دے چکا ہے۔ اس نے گرفتاری کے بعد 24 اپریل 2016ء کو مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان قلمبند کرایا تھا، اپنے بیان میں اس نے اہم شخصیات سے تعلق، غیرملکی ایجنسیوں سے رابطوں اور مختلف محکموں سے کروڑوں روپے بھتے کی وصولی کا بھی اعتراف کیا اور اس کا مزید کہنا تھا کہ وہ حاجی ناصر کو ایرانی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ کے طور پرجانتا تھا، جس نے ایران لیجاکر ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسر سے ملاقات کرائی تھی ۔ عزیر بلوچ نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اس نے ایرانی انٹیلی جنس افسر کو کراچی میں کراچی پورٹ، فشری، آرمڈ فورسز ،کور کمانڈر، اسٹیشن کمانڈر، نیول کمانڈر کراچی سے متعلق معلومات دیں۔

عزیر بلوچ نے بیان میں اپنی اور اہل خانہ کی جان کو شدید خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت سیاسی لوگوں سے جان کا خطرہ ہے۔

بہرحال عزیر بلوچ کی ساری قوت اب ختم ہوچکی ہے اور وہ بہت جلد گینگ وار کے حوالے سے بدنام لیاری کی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔عسکری ذرائع خیال ظاہر کرتے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کا کیس توملٹری کورٹ میں شاید تین ماہ چلا لیکن عزیربلوچ سے متعلق ایک سے ڈیڑھ ماہ میں فیصلے کا امکان ہے ۔

اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں