The news is by your side.

بہادر۔۔ دبنگ اور ہشیار پولیس والے

مثل مشہور ہے کہ پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔ پولیس بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس میں کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح اچھے یا برے لوگ موجود ہیں، عموماً پولیس کے اچھے کام کو اتنا سراہا نہیں جاتا جتنے کہ وہ حقدار ہوتےہیں البتہ ان کی ذرا سی بھی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی میڈیا کی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے، شام کے اخبارات میں مصالحے دارشہ سرخیاں لگائی جاتی ہیں۔

میں جب پولیس میں نیا نیا آیا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے ایک مشہور سابقہ  ڈی آئی جی سلیم واحدی صاحب  کہتے تھے کہ ’’پولیس میں بعض تو اوقات بہت کچھ کرکے بھی کریڈٹ نہیں ملتا اورکبھی تو گھر بیٹھے بٹھائے بغیر غلطی کیے سزا بھگتنی پڑجاتی ہےاور معطلی کا پروانہ چھٹی کے روز دفتر کھول کرٹائپ کرکے گھر پرپہنچایا جاتا ھے ”۔ اس وقت تو مجھے انکی اس بات کی سمجھ بالکل نہیں آئی  لکین واقعی آگے چل کر دورانِ سروس اس طرح کی بہت سی چیزیں سامنے آئیں جن سے  ڈی آئی جی واحدی صاحب  کی بات کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آیا۔

ہماری پولیس میں بھی اسی قسم کا معاملہ ہے جہاں آپ کو ہر قسم کے پولیس والوں سے واسطہ پڑتا ہے کسی کی قسمت اچھی ہوتی ہے تو اسے موقع بہ موقع خوامخواہ نوازا جاتاہے اوراگر کوئی قسمت کا مارا ہے تو بہت کچھ کرکے بھی خجل خواری اس کا مقدر ہوتی ہے ۔ آپ کو مختلف پولیس والوں سے واسطہ پڑسکتا ہے جن کے مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ملیں گے۔ اچھے برے، بہادر نڈر اوربزدل ڈرپوک، کام چورنکھٹو وغیرہ وغیرہ ۔  ایسی ایسی رنگ برنگی طبیعت والے پولیس والے پائے جاتے ہیں کہ کیا کہنا۔

دنیا بھرمیں بننے والی فلموں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 75 فیصد سے زائد فلموں کا ہیرو پولیس والا یا پھرقانون نافذ کرنے والے ہی کسی ادارے کا آفیسر ہوتا ہے جو کہ بدی سے لڑتے ہوئے آخرکارفاتح ثابت ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں بھی پولیس والا عوام کی مدد کرتا ہے اوربعض اوقات ان کے جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان بھی قربان کردیتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو پولیس والوں کی مختلف اقسام سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اس محکمہ میں کیسے رنگ برنگے پولیس والے موجود ہیں اور وہ کس طرح اپنی نوکری حلال یا حرام کرتے ہیں۔

لوگ ابھی تک پی ٹی وی کوئٹہ سے نشر ھونے والے ڈرامے  ’دھواں‘  کو فراموش نہیں کرپائے ہیں جس میں پولیس کے امیج کو بہت ہی زبردست طریقے سے پیش کیا گیا تھا جبکہ ماضی میں ہی پی ٹی وی پر اندھیرا اجالا کے نام سے ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ کررکھ دیے تھے۔ آج بھی لوگ پولیس کے محکمے کی اندرونی کہانیوں کی عکاسی کرنے والے اس ڈرامے اندھیرا اجالا کو یوٹیوب اورانٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پرجاکر بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس ڈرامے میں اچھے برے بلکہ ہرقسم کے پولیس والوں کی حقیقی عکاسی کی گئی تھی اور ساتھ ساتھ ان کی مشکلات کا احاطہ بھی کیا گیا تھا، جس سے عام آدمی کو پولیس کی اچھی بری ایسی بہت سی باتوں کا پتہ چلا جن سے وہ بالکل ناواقف تھے۔

کسی پولیس والے کی بہادری پربے اختیار گلے لگانے کو جی کرتا ہے تو کسی کی بزدلی پر شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کسی کی وردی سے خوشبو آتی ہے، تو کسی کے منہ سے آنے والے نشے کے بھبکے ماحول ہی بدبودار بنا دیتے ہیں۔ کوئی روتے کو بھی ہنسا دیتا ہے اور کوئی تو قہقہہ بھی ایسا لگاتا ہے کہ خوفزدہ کردیتا ہے۔ آئیں آج ہم آپ کو پولیس والوں کی مختلف اقسام سے آگاہ کرتے ہیں جو یقیناً آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ امید ہے کہ قارئین اس تحریر کو منفی یا تنقیدی انداز سے لینے کے بجائے بامقصد اوردلچسپ معلومات کے طور پر پڑھنے کی کوشش کریں گے۔

نڈر‘ بہادر اورفرض شناس پولیس والے


پولیس میں جہاں بہت ہی برے اور بدعنوان افسر و ملازمان بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، وہیں نڈر، بہادراورفرض شناس لوگوں کی بھی کم نہیں ہیں۔ اپنی کم تنخواہ اور ناکافی سہولتوں کے باوجود جس طرح اپنا فرض نبھاتے ہوئے یہ لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس کی مثال کسی اورنوکری مں نہیں ملتی۔ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے صرف پولس والے ہی اپنی جان قربان کرنے کا ہنرجانتے ہیں۔ حالات چاہے کتنے ہی مشکل ہوں، ایسے پولیس والے کبھی اپنے فرض سے منہ نہیں موڑتے۔ فرض شناس اور بہادر پولیس والے کو نہ کسی بااثر سیاستدان سے کوئی خوف محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی روپے پیسے کی لالچ اس کا ایمان کمزور کرسکتی ہے۔ ایسے ہی اچھے اور بہادر پولیس والوں کی وجہ سے محکمے کی عزت قائم ہے ورنہ گندی مچھلیوں نے تو پورا تالاب ہی گندا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خوامخواہ کے بھرم باز پولیس والے یہ پولیس والے ہروقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر خوف محسوس کریں اوران کی شخصیت سے مرعوب ہو کران سے دہشت کھائیں۔ اس لیے اس قسم کے پولیس والے اپنا گیٹ اپ یا حلیہ ایسا بنا لیتے ہیں کہ دور سے ہی ان کی نوکدار کڑک مونچھیں دیکھ کر ہی ان سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اوروہ بھی اپنی سلطان راہی کٹ مونچھوں کو بلاوجہ تاؤ دیتے رہتے ہیں اور سامنے والے کو مسلسل کھا جانے والی نظروں سے گھورتے رہتے ہیں، بے شک ان کے سامنے چاہے کوئی سائل یا مدعی ہی کیوں نہ ہو۔

یہ پولیس والے خوامخواہ اپنی آواز بلند اوراونچی رکھ کر بات کرنا پسند کرتے ہیں اورآرام سے بات کرنے کے بجائے فلمی اسٹائل سے چیخم دھاڑ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ بلاوجہ قریب بیٹھے شخص سے بھی رعونت سے چیخ کر بات کرتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ پورے تھانے یا دفتر پران کی خوامخواہ کی دہشت طاری رہے۔ اس قسم کے بھرم بازآفیسراگر اپنے دفتر میں اکیلے بیٹھے ہوئے اخبار کا مطالعہ کررہے ہوں یا ٹی وی دیکھ رہے ہوں تب بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ صاحب موصوف کا موڈ صحیح نہیں ہے اورغصہ میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، بے شک گھر سے بیگم کی پھٹکار کھا کر نکلے ہوں۔

حاسد اور جل ککڑے پولیس والے


یہ پولیس والے ہر وقت دوسروں سے ناخوش رہتے ہیں، بلاوجہ دوسروں سے جلتے رہتے ہیں، اور اپنے ساتھیوں کی کامیابی پر کُڑھ کُڑھ کر اپنی شکل اور حالت بری کر لیتے ہیں۔ ان کو اگر کوئی کام کہہ دیا جائے تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں بنانا شروع کردیتے ہیں کہ ہر کوئی ان سے کترا کر عافیت محسوس کرتا ہے۔ نئے پولیس والوں کو اپنے ماضی کےاچھے کاموں کی مثالیں دے دے کر ان کے کان پکا دیتے ہیں اور ہر وقت شکوہ کرتے ہیں کہ پولیس کا اچھا وقت اب ختم ہوچکا، اب اس محکمے میں کچھ نہیں بچا۔ خوامخواہ اپنے آپ سے خود ہی باآواز بلند بڑبڑاتے رہتے ہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے اچھے کام اپنے کھاتے میں ڈالنے کی بھی کوشش میں رہتے ہیں۔ اگر کسی ساتھی پولیس والے کی کوئی شکایت یا کمپلین ہوجائے تو ہر جگہ اس کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ آگے سے بحث اور شور شرابہ شروع کردیتے ہیں اور عورتوں کی طرح طعنے بازی پر اترآتے ہیں۔

درخواست باز اور شکایتی پولیس والے


یہ پولیس والوں کی اُن اقسام میں سے ایک ہے جو ہر دور میں باآسانی دستیاب ہوتی ہے، بلکہ آج کے دور میں یہ لوگ بھی بہت زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ اگر کسی غیرمعمولی اور دلیرانہ کام کے صلے میں کسی ساتھی پولیس والے کو کسی انعام و اکرام سے نوازا جائے، تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی برتی گئی ہے اور اصل میں اس انعام کے صیح حقدار وہ تھے۔

اس کے فوراً بعد ہی اپنے جیسے ہڈ حرام اور شکایتی پولیس والوں کو جمع کر کے اعلیٰ افسران کو درخواست بازی شروع کردیتے ہیں اوراگران کی درخواست پر کوئی کان نہ دھرے تو عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ بعض اوقات پرائیوٹ اور پیشہ ور درخواست بازوں کی مدد بھی لیتے ہیں۔ یہ پولیس والے اپنے ہی ساتھی پولیس والوں کو کامیاب اور خوش حال دیکھ کر بھی بہت ناخوش ہوتے ہیں، اور بعض اوقات خود سامنے نہیں آتے، اور دوسروں کو اپنے ساتھی پولیس والوں کی کمزوریاں بتا کر شکایتیں کروانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ ان درخواست باز پولیس والوں سے ان کے افسران بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہیں ان کے خلاف بھی کوئی شکایت نہ کردیں۔

اخباری پولیس والے


آج کل یہ قسم سب سے کامیاب سمجھی جاتی ہے۔ ان کا کام اپنے سینئر افسران اور اپنے ساتھی پولیس والوں کو ہر وقت خوفزدہ رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے دوست صحافی حضرات کی مدد سے محکمے کے اندر کی خبریں لیک کرنا، اگر کسی پولس افسر کو ناپسند کرتے ہوں تو اس کے پیچھے اپنے پورے گروپ کی مدد سے جگہ جگہ بیٹھ کر جھوٹی باتیں پھیلانا، میڈیا کو اس کے خلاف مصالحے دار خبریں فراہم کرنا اور اپنی ایمانداری، فرض شناسی اور قابلیت کی جھوٹی جھوٹی کہانیاں چھپوانا، یہ سارے کام کرنے کے بعد اگر تھوڑا بہت وقت میسر آجائے تو پھر پولیسنگ پر بھی توجہ دیتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کو بہت ہی معمولی باتوں پرسزائیں دے کر میڈیا میں اپنی سخت گیر اور انصاف پسند شخصیت کا ڈھول پٹواتے ہیں۔

چرب زبان اورخوشامدی پولیس والے


جس طرح معاشرے کے ہر شعبے میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بالکل اسی طرح محکمہ پولیس بھی اس نعمت سے مالا مال ہے۔ پولیس میں ایک بہت ہی مشہور افسر گذرے ہیں جو ہر دور حکومت میں اچھی سے اچھی پوسٹنگ حاصل کرلیتے تھے اور تمام اعلیٰ افسران و سیاستدان ان کو اپنا سب سے قریبی آدمی اور وفادار سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ موصوف کی پیشہ ورانہ قابلیت نہیں بلکہ خوشامد، چرب زبانی اور حد سے زیادہ جھوٹ بولنے کی مہارت تھی ۔ انہوں نے اپنا ایک روٹین بنایا ہوا تھا جس پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ وہ روزانہ صبح صبح گھر سے دفتر کے لیے نکلتے ہوئے

سب سے پہلے چند سینئر افسران کے دفتر پرحاضری لگانا نہیں بھولتے تھے اور ان کی اُن خوبیوں کے وہ قصیدے بیان کرتے تھے جو اس افسر کے اپنے علم میں بھی نہیں ہوتی تھیں۔

روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے اعلیٰ افسران کو مسکہ پالش لگا کر اپنی نوکری پکی کرنا ہمیشہ سے رواج رہا ہے اور اپنی چرب زبانی اور جھوٹ بولنے کی بنا پر ایسے پولیس افسر بہت کامیاب رہتے ہیں۔ اور ہر دور میں اچھی اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے میں کامیاب بھی یہی لوگ رہتے ہیں۔ اس قسم کے پولیس والے کبھی کسی کام سے انکار نہیں کرتے چاہے بعد میں وہ کام ان سے ہو یا نہ ہو اور عموماً بہت سے اعلیٰ افسران بھی آج کل کے حالات کی وجہ سے اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو خود یاد نہیں رہتا کہ کل کی میٹنگ میں کس کے ذمے کیا کام لگایا تھا اور اگر ان کو یاد بھی ہو تو وہ خوشامدی افسر اپنی چرب زبانی سے کام لے کر ان کو پھر کسی اور راستے پر لگا دیتا ہے۔اگر کسی افسر پر ایسے خوشامدیوں کا کوئی داؤ نہ چلے اور بھری میٹنگ میں ان کی بے عزتی ہوجائے تو بھی برا نہیں مناتے اور کپڑے جھاڑ کر پہلے سے زیادہ فنکاری کا مظاہرہ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔

نکھٹو‘ فارغ اور بالکل نکمے پولس والے


یہ پولیس والے دن رات تھانے یا دفتر میں کرسیاں توڑتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی کچھ کرنے کو نہیں ہوتا۔ کبھی فون پر مصروف ہوتے ہیں تو کبھی اپنے اعلیٰ افسر کے اردگرد منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ بغیر کچھ کیے مصروف نظر آنے کا گر جانتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے کاہلوں کا کبھی کچھ بگڑتا بھی نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے۔ اس قسم کے پولیس والے سارا دن اِدھر اُدھر گھوم کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اپنی قابلیت کے جھوٹے قصے گھڑنے میں انہیں کمال حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوگ ایک طرح سے محکمے میں ٹائم پاس کررہے ہوتے ہیں اور بغیر محنت کیے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اگر غلطی سے کبھی کوئی کام کر بھی لیں تو پھر خود ہی اپنے آپ کو داد دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے اردگرد موجود تمام افراد کو عقل سے پیدل گردانتے ہیں، اور اپنے فرمائے ہوئے کو بالکل صحیح سمجھتے ہیں۔

بلاوجہ پریشان پولیس والے


یہ پولس والے وہ ہوتے ہیں جو ہر وقت آپ کو اپنے تھانے یا دفتر میں نظر آتے ہیں۔ اپنے کام سے کبھی بھی مطمئن نظر نہیں آئیں گے ۔ تھوڑی دیر کا کام بھی زیادہ دیر لگا کر کرنے کے عادی ھوتے ہیں، اور پھر جب گھر جانے لگتے ہیں تو بھی ان کا کام ختم نہیں ہو پاتا اور ہر وقت کام کی زیادتی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی دانست میں سارے کام کا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر ہے اسی لیے جب کسی ہڈ حرام اور کام چور پولیس والے کو دیکھیں تو ان کے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ جاتی ہے۔ ہر وقت دوسروں سے ناخوش اور حسد کا شکار رہتے ہیں۔ہر وقت روتی شکل بنانے والے یہ لوگ جب اپنے کسی کام چور ساتھی کو افسران بالا کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے دیکھ لیں تو ان کا بس نہیں چلتا کہ اسے گولی ماردیں ، ہر تھوڑی دیر بعد جھانک کر اپنے افسر بالا کے کمرے میں دیکھتے ہیں اور وہاں فارغ اور کام چور ساتھی کو موجود دیکھ کر دانت پیستے ہیں اور دل میں بری بری گالیوں سے اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات جس عہدے پر نوکری شروع کرتے ہیں، ساری عمر اسی پر رہ کر ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔

یہ اکثر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، لہٰذا مسکہ پالش وغیرہ کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ انہیں لگتا ہے کہ سارا محکمہ ان کا دشمن ہے اور سب ان سے ناانصافی کررہے ہیں۔ انہیں کام دیاجائے تو پریشان ہوتے ہیں، کام نہ دیا جائے تو اور زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔

ڈرپوک پولیس والے


یہ وہ پولیس والے ہیں جو ہر وقت ہر بات سے ڈرتے ہیں۔ اگر کہیں کسی خطرناک جرائم پیشہ کو پکڑنے کے لیے جانا ہو تو اکثر عین وقت پر باتھ روم میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ اگر کسی اعلیٰ افسر کا فون آ جائے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے اور ہکلاہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ کبھی کوئی کام خود سے نہیں کریں گے اور ہر کام کی اپنے افسر بالا سے اجازت لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہروقت اپنے افسر بالا سے خود بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کے غضب سے ڈراتے رہتے ہیں۔ اگر ان کا افسر کوئی بات کہہ دے تو اسے حکم کا درجہ دیتے ہیں اور ہر وقت اسے خوش رکھنے میں ہی اپنی بہتری سجھتے ہیں۔ ایسے ہی پولیس والے ہوتے ہیں جو اپنے افسر کے فون آنے پرگھبرا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح سلیوٹ مارتے ہیں جیسے وہ افسر سامنے کھڑا ہو۔

دبنگ پولس والے


یہ پولیس والے بڑے زبردست اور بے باک ہوتے ہیں۔ کسی بھی کام سے پیچھے نہیں ہٹتے اور ہر مشکل کا بہت ہی پر اعتمادی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ کبھی کسی دباؤ میں نہیں آتے حتّیٰ کہ اپنے ہی افسران کے ناجائز احکامات ماننے سے بھی انکار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے اور اسی لیے بعض اوقات خودسری کی حدوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور پھر نقصان بھی اٹھاتے ہیں

بظاہر پر اعتماد نظر آتے ہیں اور ایسے پولیس والوں سے جرائم پیشہ افراد کی جان نکلتی ہے۔ پولیس کا محکمہ ایسے پولس افسران سے بھرا پڑا ہے۔

بےدید پولیس والے


پولیس میں ایک مثال بہت مشہور ہے کہ (معذرت کے ساتھ) کتا کتے کا گوشت نہیں کھاتا لیکن پولیس والا کسی پولیس والے کا آسرا نہیں کرتا اور کسی سویلین آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ رگڑا لگاتا ہے۔ لوگوں میں ایک غلط تاثر بہت عام ہے کہ پولیس والے اپنے پیٹی بند بھائی کی ناجائز طرف داری کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور ہر پولیس والا دعا کرتا ہے کہ اس کا کبھی کسی پولیس والے سےکوئی کام نہ پڑے۔اس قسم کے لوگ اس بات سے بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں کہ محکمے کے لوگ ان کے بارے میں کتنی بری رائے رکھتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے پولیس والے نوکری سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اگر کسی کام سے کسی پولیس والے کے پاس جائیں تو ان کو بھی کوئی گھاس نہیں ڈالتا اور جو انہوں نے ساری زندگی اپنے ساتھی پولیس والوں کےساتھ کیا ہوتا ہے وہی ان کے سامنے آتا ہے۔

قابل رحم پولیس والے


ان پولیس والوں کو دیکھ کر لوگ پولیس میں بھرتی سے توبہ کرتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔ اس قسم کے پولیس والے ایمانداری سے نوکری کرتے ہوئے قلیل تنخواہ کے انتظار میں دن گزارتے ہیں۔ خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں اور ان میں نہ کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھنے کی لگن۔ ساری زندگی تکلیفوں میں گزرتی ہے اور جب جاتے ہیں تو ان کے جانے کی کسی کو خبر بھی نہں ہوتی اور نہ ہی کسی کو کوئی فرق پڑتا ہے۔

سو ناظرین آپ نے دیکھا کہ پولیس کے محکمہ میں کس قدر مختلف اقسام کے افسران اور اہلکار پائے جاتے ہیں۔ پولیس کی اس مشکل نوکری اور مشکل حالات کے باوجود یہ محکمہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو دل و جان سے عوام کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی بھی افسر یا اہلکار پر انگلی اٹھانا نہیں تھا، بلکہ صرف یہ تھا، کہ پولیس کا ایسا چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا جائے، جس سے عام طور پر لوگ ناواقف رہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کاوش پسند آئی ہوگی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں