The news is by your side.

دہشت گردی کی نئی لہر‘ آخر وجہ کیا ہے؟

ان دنوں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے کے اندر ملک کے اہم شہروں میں کامیاب دہشت گردانہ حملے ہوئے‘ جس کے نتیجے میں فوج و پولیس کے انتہائی سینئر افسران کے علاوہ جوانوں اور درجنوں معصوم لوگوں کی جانیں گئيں۔

دہشت گردوں نے آپریشن ضرب ِعضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ جانی اور تنظیمی نقصان کے بعد اب اپنی نئی حکمتِ عملی مرتب کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسسز کے سینئر افسران کو اپنے ہدف پہ رکھ لیا ہے ۔ ان کی اس نئی حکمتِ عملی کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بناکر پوری فورس کو خوفزدہ کرنا ہے تاکہ ان کے حوصلے پست ہونے کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کی جانب دیکھنے کی کسی میں ہمت ہی نہ ہوسکے۔

ایڈیشنل آئی جی ہیڈکوارٹر خیبر پختونخواہ اشرف نور کو چوبیس نومبر کی صبح جب وہ آفس جارہے تھے‘ خودکش حملہ آور نے تاتارا پارک کے قریب ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق خودکش حملہ آور موٹرسائیکل پر سوار تھا اور اس نے اپنی موٹرسائیکل ایڈیشنل آئی جی اشرف نور کی گاڑی سے ٹکرائی جس کی وجہ سے ان کی گاڑی دھماکے سے تباہ ہو گئی ۔

اسی طرح ایک اور کارروائی میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لیے ایک اہم گیٹ وے قرار دیے جانے والے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک حساس علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر فوج کے ایک سرچ آپریشن کے دوران دہشت گردوں سے جھڑپ کے نتیجے میں پاک فوج کےاٹھائیس سالہ میجر اسحاق شہید ہوگئے۔

نو نومبر کی صبح ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن کوئٹہ حامد شکیل جی او آر کالونی میں واقع اپنی رہائش گاہ سے دفتر جا رہے تھے کہ ایئر پورٹ روڈ پر چمن ہاؤسنگ سکیم میں خودکش بمبار نے خود کو ان کی گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی حامد شکیل، اے ایس آئی محمد رمضان، ڈرائیور جلیل احمد شہید ہوگئے۔

ٹھیک چھ روز بعد پندرہ نومبر کو کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں فائرنگ سے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا شہید کر دیےگئے۔

ایس پی محمد الیاس اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شہر کی جانب جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح ملزمان نے نواں کلی کے علاقے میں ان کی گاڑی پر فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ دہشت گردوں کے حملے میں ایس پی محمد الیاس کی پوتی شدید زخمی ہوئی جسے طبی امداد کے لیے تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا ۔

ان خودکش حملوں کے علاوہ بھی بلوچستان ، خیبر پختون خواہ اور پاک افغان بارڈر کے نزدیک پاکستانی حدود میں اکثر سیکیورٹی فورسز کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنانے جیسی کاروائیاں سننے میں آتی ہیں۔ ملک کی فوج، تمام انٹیلی جنس ادارے، دیگر سکیورٹی ایجنسیوں اور مقامی پولیس کی مدد سے دہشت گردی پر قابو پانے اور اس کے قلعہ قمہ کی بھرپور کو شش کی جارہی ہے ‘ کسی حد تک ان کوششوں میں کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن ان دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کو ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی نیا گروپ دہشت گردی کے حوالے سے سامنے آتا ہے اور جب تک ایجنسیاں اس تک پہنچیں تب تک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن، ملک بھر میں مقامی پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کو انٹیلی جنس اداروں کی دستیاب بھرپور تیکنیکی مدد کی وجہ سے منظم دہشت گرد تنظیموں کا شیرازہ بکھر نے کی وجہ سے اب ان تنظیموں کی باقیات ایک مسلسل تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کہیں نظریاتی اختلاف ہے تو کہیں ذاتی شخصیت پسندی نے بھی ان کی بنیادیں ہلائی ہوئی ہیں جبکہ مالی معاملات پر لڑائی تو ہمیشہ سے پاکستان میں برسرِ پیکار جہادی اور عسکری تنظیموں کا خاصہ رہی ہیں۔ اب لگتا ایسا ہے کہ جماعت الاحرار اور اس جیسی دوسری تنظیموں سے علحیدہ ہونے والے گروپ اپنی شناخت اور موجودگی کا احساس دلانے کے لیے متحرک ہوچکے ہیں۔

ماضی میں بھی یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ لشکرِ جھنگوی کے بانی ملک اسحاق کی گرفتاری کے بعد ریاض بسرا اور اکرم لاہوری سے تنظیمی مالی اختلافات کی وجہ سے نعیم بخاری اور آصف رمزی نے الگ ہوکر اپنا نیا گروپ تشکیل دیا اور پھر اس گروپ نے اپنی علیحدہ شناخت قائم کرنے کی دوڑ میں جس طرح فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ایک خونی باب رقم کیا ‘اس کی بھینٹ چڑھنے والوں میں مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز‘ وکیل اور دوسرے شعبوں سےتعلق رکھنے والی انتہائی اہم شخصیات تھیں۔

سنہ 2002 میں جہادی تنظیم حرکت المجاہدین میں پھوٹ کی وجہ بھی مالی معاملات تھے۔ تنظیم کی مرکزی قیادت سے کراچی سے تعلق رکھنے والے تنظیمی ذمہ داروں نے جب چندے‘ زکوة اور فطرے کی مد میں جمع ہونے والی خطیر رقم کا حساب مانگا تو یہاں بھی اختلافات پیدا ہوئے اور تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

ان کا مؤقف تھا کہ کراچی سے جمع ہونے والی رقم تنظیم کے پورے ملک سے جمع ہونے والی مجموعی رقم کا ستر فیصد سے زائد ہونے کی وجہ سے قیادت کی جانب سے مالی بدعنوانی پر وہ حساب کتاب کرنا چاہتے ہیں ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے گروپ نے اپنی تنظیم کا نام حرکت المجاہدین العالمی رکھا۔ محمد عمران نامی پرانے جہادی کی قیادت میں قائم ہونے والے گروپ کا اصل ماسٹر مائنڈ سہیل عرف مصطفیٰ نامی ایک جنگجو تھا جس نے القائدہ کے عسکری کیمپوں سے تربیت حاصل کی تھی ۔

اس گروپ نے بھی اپنی علیحدہ شناخت اور پہچان بنانے کے لیے کراچی شہر میں پہلی مرتبہ خوفنا ک خودکش حملے متعارف کروائے ۔ امریکی قونصل خانے پر بارود بھری سوزوکی ٹکرانا اور اس سے قبل شیرٹن ہوٹل کے سامنے فرانسیسی انجینئرزکی بس کو ایک خوفناک خودکش کار بم دھماکے سے اڑانے کے پیچھے بھی دہشت گرد مصطفیٰ ہی کی پلاننگ کارفرما تھی۔ کراچی ہی میں واقع مقدونیہ قونصل خانے کو دھماکے سے تباہ کرنے جیسے واقعات کے علاوہ بھی اس گروپ نے دہشت گردی کی متعدد کاروائیاں کیں ۔

جب میں نے دو ہزار چار میں اس انتہائی مطلوب دہشت گرد مصطفیٰ کو کراچی کے علاقے سے اپنے ایک ’کلاسک آپریشن‘ ( جس کی تفصیلات آئندہ کبھی بیان کی جائیں گی) کے بعد پکڑا تو دورانِ تفتیش اس نے تسلیم کیا تھا کہ ’ اس کی نئی تنظیم اپنی پرانی شناخت سے علیحدہ ہوکر اپنے آپ کو منوانا چاہتی تھی جس کی وجہ سے اسے کراچی میں غیرملکی مشن اور شخصیات پر خودکش حملوں کی حکمتِ عملی وضع کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں ۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کامیاب خودکش حملوں سے پولیس اور دیگر فورسز کے ساتھ ساتھ عوام کا ’مورال ‘ بھی گرتا ہے جو اس جیسے دہشت گردوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتاہے‘۔

تحریک طالبان پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا جماعت الاحرار گروپ بھی اب تقسیم کا شکار ہوچکا ہے اور اس کا بانی کمانڈر عمر خالد جو ایک میزائل حملے کے نتیجے میں مارا جاچکا ہے ‘ اس کے ایک دیرینہ کمانڈر مکرم خان نے حزب الاحرار کے نام سے اپنا ایک نیا گروپ بنا لیا ہے۔ اسی طرح تحریکِ طالبان پاکستان ، لشکرِ جھنگوی وغیرہ کےمختلف دھڑے بھی مسلسل تقسیم در تقسیم کے مسائل سے دوچار ہوکر اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑتے نظر آرہے ہیں ۔

مجھے اس وقت پشاور ‘ کوئٹہ اور اس سے پہلے لاہور میں پولیس کے اعلیٰ افسران کو نئی حکمتِ عملی کے تحت خودکش حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے کے پیچھے دہشت گرد گروپوں کی اپنی علیحدہ پہچان اور شناخت قائم کرنے جیسا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ ان دہشت گرد گروپوں کی حکمتِ عملی میں غیر متوقع ہدف پر اچانک اور حیران کن خوفناک حملہ اولین ترجیح ہوتی ہے اس لئے ممکنہ طور پر انکے آئندہ کے نشانے کراچی اور اسلام آباد بھی ہوسکتے ہیں جس کے لئے ان شہروں کی مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے واے اداروں کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہنا ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں