میرا بس چلے تو میں تمہارے بھی دس ٹکڑے کردوں
یہ طالبان کی ایک ذیلی تنظیم سے تعلق رکہنے والے اس دہشت گرد کے الفاظ تھے جس سے میری ٹیم کے ماہر تفتیشی افسران ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی سختی کے باوجود چوبیس گھنٹے تک اس کا اصل نام تک نہ اگلوا سکے تھے۔ ہر دس منٹ بعد اپنی پہلے بتائی ہوئی بات سے مُکرنے والے اس سخت جان ملزم نے تفتیشی افسران کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے بلکہ خود کو تقریبا معصوم اور بے گناہ ثابت کرچکا تھا مگر جب میں نے اپنی پوری تفتیشی ٹیم کو اینٹیروگیشن روم سے باہر جانے کے لیے کہا اور اس سے اپنے مخصوص طریقہ کار کے مطابق بات کرنے کا فیصلہ کیا تو تھوڑی ہی دیر میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کے بعد وہ مجھ سے تعاون کرنے پر آمادہ ہوچکا تھا اور نہ صرف اپنی پوری رام کہانی سناڈالی بلکہ اس نے وہ انکشافات کئے کہ جس سے ایک بین الاقوامی سطح کا کیس حل ہوگیا۔
دورانِ ملازمت مجھے مختلف جرائم پیشہ افراد و دہشت گردوں سے واسطہ پڑتا رہا ، عام زندگی میں ملنے والوں کی طرح جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کا مزاج اور نفسیات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد انتہائی خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور دورانِ تفتیش وہ آسانی سے اپنے گناہ قبول بھی نہیں کرتے۔ سی آئی ڈی میں کام کرتے ہوئے سینکڑوں دہشت گردوں ، گینگ وار کے کارندوں، اور مختلف جرائم پیشہ افراد سے تفتیش کرنے کا موقع ملا۔ ایسے دہشت گرد بھی تھے جنھیں ہم نے خود گرفتار کیااور ایسے بھی مجرم تھے جو ایجنسیوں نے پکڑ کر ہمارے حوالے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف مقامی تھانوں میں گرفتار ہونے والے اکثر بڑے مجرم بھی تفتیش کے لئے سی آئی ڈی کے حوالے کردیے جاتے تھے۔ سی آئیڈی سول لائنز کے تفتیشی سیل خاص طور پر بڑے دہشت گردوں اور ملزمان سے تفتیش کے لئے خصوصی طور پر تیار کئے گئے تھے۔
تفتیشی افسراورمجرم کے درمیان ایک نامعلوم لیکن گہرا تعلق ہوتا ہے
ایک کی زندگی داؤ پر ہوتی ہے تو دوسرے کی ساکھ
اس دہشت گرد سے بھی میرا واسطہ اسی وقت پڑا جب میں سی آئی ڈی سول لائینز میں تعینات تھا ۔ ایک خفیہ آپریشن کے بعد ہم نے حرکت المجاہدین نامی تنظیم کے تربیت یافتہ دہشت گرد کریم کو گرفتار کیا ۔ کریم نے میرے تفتیشی افسران کو مشکل میں ڈال رکھا تھا اور تفتیش کے دوران مختلف طریقے استعمال کرنے کے باوجود وہ تفتیشی افسران کو اپنے بیانات کے زریعے گمراہ کررہا تھا۔ہر دس منٹ بعد اپنا بیان بدل دیتا تھا اور اس کی پوری کوشش تھی کہ پوچھ گچھ کے دوران اتنا جھوٹ بولے کہ تفتیشی افسران اسے جھوٹا اور ڈرامہ باز قرار دے کرچھوڑ دیں۔تفتیشی افسران بھی بری طرح زچ ہوچکے تھے ۔
کریم ایک سخت جان تجربہ کار جہادی تھا جس کی زندگی کازیادہ تر حصہ بڑے بڑے جہادی کمانڈروں کے ساتھ گذرا تھا۔ القائدہ کی ٹاپ لیڈرشپ کے ساتھ مختلف عسکری تربیت کیمپوں میں تربیت حاصل کرنے والا شخص کس بات سے اتنا مجبور ہوا کہ تعاون پر آمادہ ہوا اور اتنے بڑے جرم سے پردہ اٹھایااورایسی کیا بات تھی جس سے ایک خطرناک جہادی تنظیم کا انتہائی تربیت یافتہ جنگجو ٹوٹ کر رو پڑا اور سارا کچہ چٹھہ کھول کر رکھ دیا؟
میں ہمیشہ سے اس بات پریقین رکھتا ہوں کہ تفتیشی مراحل یا پوچھ گچھ کے عمل میں سچ تک پہنچنے کے لیے تشدد یا توہین کے پہلو سے زیادہ ملزم کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملزم کے خاندانی پسِ منظر اور حالاتِ زندگی سے واقفیت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دورانِ تفتیش بعض اوقات بہت ہی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ملزمان کا بلک بلک کر رونا، ہچکیوں کے ساتھ اپنے ماں باپ بیوی بچوں کو یاد کرنا اچھے بھلے سخت اعصاب کے مالک تفتیشی افسران کی آنکھیں بھی نم کردیتا ہے۔ اکثر تفتیشی افسر اور ملزم کے بیچ ایک بے نام سا گہرا جذباتی تعلق بھی قائم ہو جاتا ہے۔ تفتیشی افسر کی دسترس میں یہ اختیار ہوتا ہے کہ ملزم کو بے گناہ ثابت کرکے آزادی دلادے جبکہ ملزم کی دسترس میں معلومات ہوتی ہیں جو وہ چھپا بھی سکتا ہے اور بتا بھی سکتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت کے تابع ہوتے ہیں۔ تفتیشی افسر کی ساکھ اور ملزم کی زندگی ۔۔۔دونوں طرف بہت کچھ داؤ پر لگا ہواہوتا ہے۔
اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے میں نے کریم سے تفتیش سے قبل اس کے حالاتِ زندگی اور خاندانی پس منظر پر کام کیا۔اس کے حالاتِ زندگی کے حوالے سے تحقیقات کی ، اس کے معاملات کی کھوج لگائی اور اس کے سماجی اور معاشی معاملات کی تفصیلات حاصل کی۔ اس کی نفسیات کواچھی طرح مانیٹر کیا اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ میری ایک ٹیم اس کے ساتھ سختی سے پیش آرہی تھی جبکہ میں دوستانہ ماحول میں گپ شپ کرکے اسے کھولنا چاہ رہا تھا ۔ یہ ہماری تفتیشی تیکنیک ہوتی ہے۔
مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ کریم چار بیٹیوں کا باپ ہے اور بڑی بیٹی صرف دس برس کی ہے ۔ اس کا زیادہ تر وقت جہادی تنظیموں کے ساتھ کشمیر و افغانستان میں گزرا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ اپنی بچیوں اور بیوی کے ساتھ وقت نہیں گزار سکا اور اس کا اسے شدت سے احساس ہے ۔ مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ نفسیاتی طور پر کریم کا کمزور پہلو ہے ۔ اب گرفتاری کے بعد اسے اندازہ تھا کہ اسے زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑے گی تو بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنے کا احساس شدت سے اس اس کے قلب و زہن پر ہاوی ہوچکا تھا۔میں اس چیز کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
میں نے غیر محسوس انداز سے دوستانہ ماحول میں تفتیش شروع کرکے بات چیت کا رخ اس کے گھریلو معاملات کی جانب موڑا اور پھر اس کی بیوی بچوں پر بات شروع کردی۔ میں نے اس سے کہا کہ
کریم تمہیں پتا ہے کہ بیٹیوں کے لیے باپ ایک ہیرو کی طرح ہوتا ہے اسی طرح باپ بھی بچیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ۔ تم کیسے باپ ہو کہ تمہیں اپنی بچیوں کی پرواہ نہیں ۔ اب تم جیل میں ہوگے تو تمہاری بچیاں باپ کے سائے کے بغیر جوان ہوں گی۔ زندگی کے ہر مرحلے پر وہ ایک دہشت گرد باپ کی بیٹیاں ہونے کا طعنہ سن کر بڑی ہوں گی اور جوانی کی دہلیز تک پہنچتے ہوئے وہ یا تو تم سے نفرت کرنے لگیں گی یا پھر تمہارے رستے پر چلتے ہوئے خود کو گنوا دیں گی۔ سماجی اور معاشی طور پر ان انھیں معاشرے میں جگہ نہیں مل سکے گی اور یہ احساس محرومی ان بچیوں میں پیدا کرنے کے ذمہ دار تم ہوگے۔ تمہاری بیوی بیٹیوں کو گھر سے رخصت کرنے کے لئے رشتوں کی منتظر ہوگی مگر کوئی گھرانہ کسی دہشت گرد کی بیٹیوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ معاشرہ انھیں ٹھکرا دے گا اور وہ کوئی بھی رستہ اختیار کرلیں گی اوران کی اس تباہی کے ذمہ دار تم ہوگے۔
میں یہ بات چیت کرنے کے دوران مسلسل اس کی باڈی لینگوئج اور جوابات سے اسے مانیٹر کررہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کریم کے پاس میری باتوں کا جواب نہیں ہے اور وہ لاجواب ہوتا چلا گیا۔ لیکن اسےخدشہ تھا اگر وہ اپنی زبان کھولے گا تو اس کی تنظیم کہیں اس کے خاندان کو نقصان نہ پہنچادے ۔ کریم کو شش و پنج میں دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا تو میں اپنی تفتیش کے دوسرے مرحلے پر آیا اور اسے کہا کہ ۔۔۔۔دیکھو اگر تم میرے ساتھ تعاون کرو تو میں نا صرف تمہارے گھر کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کے انتظامات حکومت سے کروانے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ تمہارے حوالے سے بھی جس حد تک بھی رعایت ممکن ہوئی کرنے کی کوشش کروں گا۔
میرا تیر نشانے پر لگ چکا تھا ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کریم نے ہم لوگوں سے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مجھے بڑی تفصیل کے ساتھ لشکرِ جھنگوی کے امجد فاروقی، نعیم بخاری، عمر شیخ ، آصف رمزی وغیرہ کے ساتھ ملکر امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوأ کی پلاننگ سے لے کر اس کو اپنی قید میں رکھ کر ساتھ گذارے ہوئے دنوں کی مکمل اور بھرپور تفصیلات بتادی ۔ پھر عمر شیخ کے پکڑے جانے پر سعود میمن کے ذریعے لشکرِ جھنگوی کا القائدہ کے ہاتھ ڈینئل پرل کا سودا کرنا اور آخر میں القائدہ کے خالد شیخ محمد جو کہ نائن الیون ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ماسٹر مائنڈ تھا کے ساتھ مل کر ڈینئل پرل کو ذبح کرکے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سعود میمن کے پلاٹ کے اندر ہی گڑھا کھود کر اس میں دفنانے کی پوری کاروائی کی تفصیل بیان کردی ۔
کریم کی نشاندہی پر ہم لوگوں نے سعود میمن کے پلاٹ سے امریکی صحافی
ڈینئل پرل کی لاش کی باقیات برآمد کیں اور باقی ملزمان کوگرفتار کیا
اس طرح تفتیش کے دوران مجرموں سے جسمانی سختی کے طریقہ کار کے بجائے کس طرح نفسیاتی طریقہ کار کے ذریعے کئی سخت جان دہشت گردوں کو زیر کیا گیا۔ اس کی تفصیل میں آئندہ کالموں میں بھی بیان کرتا رہوں گا۔ تاکہ ہمارے نئے آنے والے پولیس افسران کو بھی اندازہ ہوسکے کہ اس طریقہ کار کے زریعے بھی مجرمان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسےاپنی وال پرشیئرکریں