گجرانوالہ کے گنجان آباد علاقے کے مرکز میں شہر کا گھنٹہ گهر واقع ہے جہاں اس قدیم اور تاریخی شہر کے تمام پرانے راستےآکرکھلتےہیں گهنٹہ گهر سے کچھ ہی فاصلہ پر جنوب کی جانب شہر کی پرانی منڈی جیسے اب مچھلی منڈی کہا جاتا ہے واقع ہے یہ منڈی اس شاندار حویلی کے عین صحن میں واقع ہے جو کے پنجاب کے پہلے پنجابی حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش ہے۔
کہتے ہیں کہ 13 کا حصہ منحوس ہوتا ہے لیکن نومبر 1780 کی 13 تاریخ برصغیر کے پنجابیوں کےلیے اس لئے خوش قسمتی کا دن ہے کہ اسی روز یہ واحد مقامی خود مختار حکمران پیدا ہوا جس کی ریاست کم و بیش انہی علاقوں تک پهیلی ہوئی تھی جو کہ آج پاکستان میں شامل ہیں اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ اس علاقہ میں ایک آزاد ریاست کا وجود کوئی نئی بات نہیں تھی تو بے جا نہ ہوگا یہاں ایک امر قابل غور یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اس دلیل کو کیوں پیش نہیں کیا کہ یہ علاقہ پہلے بھی نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک ایک آزاد ریاست کی حیثیت میں اپنا وجود قائم رکھے ہوئےتھا؟ کیوں سکھ مذہب کے ماننے والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ یہ وہی ریاست ہے جس کا حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا؟ تاریخ پاکستان کے کسی چیپٹر میں میں نے یہ ضرور پڑھا ہے کہ قائداعظم سکھ رہنماء ڈاکٹر تارا سنگھ کوقائل ضرور کرتے رہے لیکن ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن اس بات کا ذکر کہیں نہیں ملتا کہ کبھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خود مختار آزاد ریاست کا ذکرکیا گیا ہو۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی یہ ریاست ایک سیکولر سٹیٹ تھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بهنگی سکهوں نے جب لاہور کے ہندو مسلم عوام پر وہاں کی زمین تنگ کردی تو انہوں نے خود گوجرانوالہ سے اس 19 سالہ سکھ نوجوان کو بلایا کہ وہ بنگهی سکهوں اور افغانی شورش پسندوں سے انہیں بچائے۔ یاد رہے کہ بھنگی سکھ بھی سکھ مذہب کی ایک شاخ ہے جو ہر وقت بھنگ کے نشہ میں دھت رہتے اور ہندوں مسلمانوں سمیت ہر اس شخص پر ظلم کرتے جو غیر سکھ ہوتا۔ رنجیت سنگھ نے ناصرف ان بھنگی سکھوں کو اس علاقہ سے مار بھگایا بلکہ افغانی حملہ آور کے خلاف بھی برپیکار رہا رنجیت سنگھ ہی وہ شخص تھا کہ جس کے ساتھ انگریزوں کو تین دفعہ امن کا معاہدہ کرنا پڑا اور اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب پر اپنا تسلط قائم نہ کر سکی جب تک شیرِ پنجاب کے نام سے جانے جانے والا حکمران تخت پنجاب پر براجمان رہا۔
اس کا دربار اور اس کی فوج میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے گڈ گورنس کی جو اصلاح انگریزی زبان میں استعمال کی جاتی ہے وہ اس کے تمام تقاضے پورے کرتا تھا انتظامی اصلاحی جنگی تعلیمی غرض ہر میدان میں وہ یکتا تھا باوجود کے وہ ایک ان پڑھ انگوٹھا چھاپ انسان تھا اس کے دور میں لاہور کے 87 فیصد لوگ فارسی لکھ پڑھ سکتے تھے وہ ایک دوراندیش اور مدبر حکمران تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ کمپنی بہادر نے ایک بہت ہی قیمتی انگریزی نسل کا گھوڑا تحفہ کے طور پررنجیت سنگھ کو ایک چھوٹے بیڑہ پر دریائے راوی کے راستے بھیجا . راجہ نے شکریہ کے ساتھ تحفہ تو قبول کرلیا لیکن ساتھ ہی یہ پیغام بھی انگریزی فوج کے سپاہ سالار کو پہنچایا کہ حضور کیا اس دفعہ دریا کے راستے چڑھائی کا ارادہ ہے۔
لاہور کے 7 گمنام تاریخی مقامات
سنہ ۱۸۸۰ سے ۱۸۳۹ تک گریٹر پنجاب پر حکومت کرنے والا یہ جنگجو گو کہ سکھ مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور کچھ تلخ تاریخ بھی آڑے آتی ہے لیکن اس مٹی سے اس کا جو تعلق ہے اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا. دراصل تعصب کی عینک جہاں غیروں کی خوبیاں چھپا لیتی ہے وہاں اپنوں کی برائیوں پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخی حقائق بھی وقت کے ساتھ ساتھ مسخ ہونا شروع ہوجاتے ہیں اچھے اور برے میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے اگر دہلی کے مغل حکمران چند درباری ملاؤں کے کہنے میں نہ آتے اور اس مذہب کو دبانے کی کوشش نہ کرتےتو شاید یہ مذہب اتنا بڑھتا پھولتا ہی نا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اسلام کے ایک فرقے کی شکل میں اپنا وجود رکھتا۔ تاریخی حقائق بھی کچھ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اولاً پنجاب کے صوفی بزرگان دین کا سکھ مذہب کے ماننے والے اتنا ہی احترام کرتے ہیں جتنا کا خود اس خطے کے مسلمان کرتے ہیں اس نظریے کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ سکهوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کی سنگ بنیاد لاہور کے مشہور صوفی بزرگ حضرت میاں میر سے رکھوائی گئی جہاں تک سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کی بات ہے انہوں نے تلاش حق کی جستجو میں عرب کا سفر کیا اور حج کا فرض بھی ادا کیا۔
گجرانوالہ کی یہ واحد تاریخی حویلی جو رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش ہے محکمہ ہندو اوقاف کی ملکیت ہے اور پاکستان بننے سے اب تک اس کی حالت دن بدن خستہ حال ہوتی جارہی ہے حویلی کے ایک کمرے کا دروازہ جس پر ایک بڑا سا تالہ پڑا رہتا ہے‘ اس پرایک پرانی تختی لگی ہوئی ہے جس پر جائے پیدائش راجہ رنجیت سنگھ لکھا ہوا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حکمران کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اور جو تعلق اس کا اس مٹی سے ہے اس کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اس حویلی کومحکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کرکے تاریخی مقام کا درجہ دیا جائے ‘ مچھلی منڈی کو یہاں سے منتقل کر کے اس کو سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے۔
خاص طور پر سکھ یاتریوں کیلئے جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پاکستان آتے ہیں لیکن اس سے بھی اہم ترین بات یہ ہے کہ پنجاب کے اس جنگجو کے کردار کو بلا تفریق مذہب و نسل اجاگر کرکے اس خطہ ٔارض جیسے پاکستان کہتے ہیں کی تاریخ میں جائز مقام دیا جائے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں