The news is by your side.

کراچی کے صحافی‘ اور صحافیوں کی بیواؤں کے مسائل

آج کل سیاسی افراتفری میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، ہر جگہ پانا  ما لیکس کی ہنگامہ آرائی ہے اور عوام اس بچگانہ کھیل کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور ہماری سیاست اس نقطے پر قائم ہے کہ ہم آج بھی عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں جبکہ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی قوتِ برداشت جواب دیتی جاری ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ ہر معاشرے میں نیکی اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی، جتنی تیزی سے برائیاں پھیلتی ہیں۔

آج ہمارے وطن میں خوش حال اور غریب اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ہر ایک کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اب ایمانداری کا زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے معاشرے میں جو حیثیت ایک امیر ترین طبقے کی ہے وہ غریب اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اچھا معاشرہ ہی لوگوں کی شخصیات کی تعمیر کرتا ہے، غربت اور افلاس آج سے25 سال پہلے کے لئے ہوتی تھی مگر آج تو اعلیٰ تعلیم یافتہ میڈل کلاس بھی اس کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اور پھر جب ایسی باتیں پیدا ہوجائیں تو عزم و حوصلہ جواب دے جاتا ہے، کوئی بھی کسی کی خدمت کو اعترافِ کمال کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہاں جب حقوق کی بات کی جائے تو کرتا دھرتا ایک بے ہنگم واویلا ضرور مچاتے ہیں، وقتاً فوقتاً جائز حقوق دینے کی بات تو کی جاتی ہے پھر قرعہ اندازی ان کے نام نکلتی ہے جو حوصلے کا واویلا مچاتے ہیں، مسائل سے درپیش لوگ وقتی خوشی ضرور مناتے ہیں پھر ان کی آرزوئیں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک دوست نے کہا کہ آپ نے پاناما لیکس کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، میں انہیں کیا بتا تاکہ بھائی یہ عوام کا مسئلہ نہیں جو کرپشن ہونی تھی وہ ہوچکی۔ ہاں اس کا مختصر جواب ضرور دوں گا کہ تمام پاکستانی سیاست دانوں سمیت بالکل خاموشی سے2018ء کے الیکشن کا انتظار کریں، آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ رہا میری تحریر کا معاملہ تو میں عوام میں سے ہوں اور عوام کے لئے اور ان کی مشکلات پر قلم اٹھاتا ہوں کہ شاید کسی کرتا دھرتا کے دل میں خوف خدا پیدا ہوجائے، یہی میرا مشن ہے۔

آج کا موضوع میرے لئے تو بہت تکلیف دہ ہے کہ آج سے21 سال پہلے کا واقعہ ہے کہ جو شخص 30 برس کا تھا وہ آج 51 برس کا ہوگیا، نہ جانے کتنے گورنر اور وزیراعلیٰ آئے جو صحافیوں کو سب سے عظیم شخصیت کہتے رہے، صرف زبانی کلامی قناعت کا درس بھی دیتے رہے اور خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔
یاد رہے کہ ارکان کراچی پریس کلب کو ہاکس بے صحافی کالونی کے پلاٹ 1996ء میں الاٹ کئے گئے تھے، 21 سال گزر چکے مگر آج تک صحافیوں کو تعمیرات کی اجازت نہیں ملی جو تمام تر ادائیگی کے بعد اپنی دستاویزات مکمل کرچکے ہیں ۔حالیہ گورنر اور وزیراعلیٰ صوبائی وزیر بلدیات ذرا غور فرمائیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی17 مارچ کو اپنے حکم میں(لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی)   ایل ڈی اے کی طرف سے تعمیرات اور دستاویزات کے اجراء کے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

اب راقم آتا ہے ان 21 سالوں کی طرف یہ ہماری سندھ کی قیادت کے لئے قربِ قیامت کی نشانی ہے کہ تم تو زندہ ہو مگر نہ جانے میرے محترم اور عزیز صحافی حضرات لحد کی گود میں منہ چھپا کر رب کی طرف لوٹ گئے۔ اب بھلا بتائیے کہ ان کی بیوہ میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ بقایا جات ادا کرسکیں، یہ مقدس اسمبلی کم از کم ایسے مرحومین صحافیوں کے اہلِ خانہ پر رحم کرے اور ان کے بقایا جات کو ختم کرکے اس دشوار گزار اور اذیت ناک راستے کو ختم کرے کیونکہ ان کے گھر کا فرد چلاگیا جو ان کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ نہ جانے ان مرحومین صحافیوں کے بچے علم کی زنجیریں اپنے پیچیدہ مسائل کے ساتھ کس طرح پہن رہے ہوں گے۔

گورنر اور وزیراعلیٰ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنی مخلصانہ حکمتِ عملی سے اس مسئلے کو حل کریں کہ آپ کو بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ ایل ڈی اے کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت سندھ کے تحریری حکم پر تمام کام روک دیا تھا، یقیناً اس عمل میں سندھ کے گورنر زبیر صاحب، وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ صاحب تو شریک کار نہیں ہوں گے،  یہ  توماضی کی بات ہوں گے۔ گورنر سندھ نرم دل انسان ہیں، وزیراعلیٰ ابھی جوانی کی دہلیز پر ہیں، ان سے میری مؤدبانہ درخواست ہے جو الاٹیز اپنی قسط کے بقایا جات ادا کرنے کے قابل نہیں، ان سے درخواست لی جائے جو حضرات مالی طور پر اگر ابھی اس قابل نہیں کہ وہ بقایا اقساط نہیں دے سکتے تو برائے مہربانی ان کی اقساط ختم کرکے پلاٹ ان کو دے دیا جائے۔

میں ذاتی طور پر ایل ڈی اے  کے ایگزیکٹیو انجینئر ڈیولپمنٹ جناب آغا نفیس سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ خاص طور پر مرحوم صحافیوں کی بیواؤں کی بقیہ اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں۔ خاص طور پر صوبائی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا صاحبہ آپ خاتون ہیں اور اکثر ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر خواتین کے حقوق کی آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ آج آپ کو تحریر کی صورت میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ درخواست کروں گا کہ مرحومین کی بیواؤں کی اقساط ختم کروانے میں آپ اور اسمبلی اہم کردار ادا کرے کیونکہ صحافی تو وہ طبقہ ہے، جس نے 1996ء سے لے کر 2017ء تک کسی بھی حکومت کے لئے اپنے پلاٹوں کے خاطر نہ کبھی قانون ہاتھ میں لیا اور نہ دھرنے دیئے، نہ گورنر ہاؤس  اور وزیراعلیٰ ہاؤس یا اسمبلی کا گھیراؤ کیا (یہ صرف پلاٹوں کے حوالے سے) لکھ رہا ہوں، جو لوگ اتنے منظم ہو ں ا  گر ان کے مسائل بھی حل نہ کئے جائیں تو پھر یہ سیاسی قیادت کس قسم کے لوگوں  کتے مسائل کا حل چاہتی ہے، لہٰذا شہلا رضا صاحبہ کم از کم آپ صحافیوں کی بیواؤں کے لئے قدم اٹھائیں جو بیوہ خواتین (صحافی) حضرات ہاکس بے صحافی کالونی بلاک نمبر2 3، 3، A اور A-1 کے الاٹیز جن کی اقساط بقایا ہیں اوروہ میڈیم کلاس صحافی جو اخبارات  اور مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ ہیں ان کی بقایا اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں۔

اس معاملے میں گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اپنا ذاتی کردار ادا کرتے ہوئے ان  اقساط کو نظر انداز کریں، اگر گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ میری اس بات کا برا نہ منائیں کہ سیاسی لوگ کروڑوں کا قرضہ معاف کراسکتے ہیں تو ان قلم کے شہہ سواروں کے لئے صرف درخواست کی ہے، کیا اس پر عمل نہیں ہوسکتا (اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں بھی امیدوار ہوں تو معاف کیجئے گا، راقم کا ان پلاٹوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا پلاٹ ہے)۔مگر یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے میں نے بحیثیت ایک صحافی کے متوسط طبقے کے لئے ہمت و استقلال سے ایک مخلصانہ کوشش کی ہے، کیونکہ راقم جب عوامی مسائل پر قلم اٹھاسکتا ہے، یہ تو پھر میرے قبیلے کے لوگ ہیں۔

آپ تمام حضرات مسند ِاقتدار پرفائز  ہیں، رب نے آپ کو فیصلے کرنے کی ہمت اور طاقت دی ہے پھر صحافیوں کا اور آپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر وزیراعلیٰ، گورنر اور ڈپٹی اسپیکر اس کرب کی داستان کو سمجھ لیں تو یقیناً یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ان صحافی حضرات کی بیواؤں کے خواب ریزہ ریزہ ہونے سے بچالیں۔ ان خواتین کے دکھ بھرے مسائل میں جھانکنے کی کوششیں کریں تاکہ یہ غیر یقینی صورت حال سے نکل سکیں۔ اس میں میرے وہ صحافی بھی شامل ہیں جو سفید پوش ہیں مگر کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔

خدارا !آتش بیانی سے کام نہ لیا جائے جو صحافی یا اس کی بیوہ درخواست دے اس کے بقایا جات پر نظر ثانی کی جائے، جب لوگ راضی ہوجائیں گے تو یقیناً آپ سے رب بھی راضی ہوجائے گا۔ دستاویزات کا اجراء تو تب اچھا لگے گا، جب ہاکس بے صحافی کالونی میں ہونے والی تعمیرات، الاٹمنٹ، آرڈرز، سائٹ پلان اور پزیشن آرڈر میں آپ اپنے احساس کی خوشبو اصولی طور پر بکھیر دیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے17 مارچ کے حکم کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، جس میں کہا گیا ہے کہ تعمیرات اور دستاویزات پر فوری عمل کیا جائے ویسے بھی پی پی پی  کی حکومت کورٹ کا احترام کرتی ہے (کہ برسر اقتدار ہوتے ہوئے بھی کورٹ کے احکامات پر اپنا وزیراعظم واپس لے لیا تھا) پھر اسی حکومت کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول نہ کیا جائے۔

میں پھر گورنر صاحب، وزیراعلیٰ صاحب اور ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا صاحبہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر اپنی ذاتی توجہ دیں گے کہ یہ دانشوروں اورصحافت  کے شہہ سواروں کا معاملہ ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں