اولاد اللہ پاک کی نعمتو ں میں سے ایک ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے اولاداس کا اصل دھن دولت اور زندگی کا کل سرمایہ اولاد ہی ہو تی ہے۔ اولاد ہی ان تین اہم چیز وں میں سے ایک ہے جو کسی انسان کی وفات کے بعد اس کے ثواب کا ذریعہ بنتی ہے۔ اولادبھی تب ثواب کا ذریعہ بنے گی‘ جب اس کی بہتر تربیت ہو گی۔ اولاد کی تربیت میں غفلت اورکو تا ہی ان کو راستے سے بھٹکنے کا مو قع دیتی ہے۔ ہم اپنے آرام اور سکون کے لئے بچوں کو اپنے آپ سے دور تو کر دیتے ہیں ‘ پر زندگی میں ایک مو ڑ پر اس بات کا احساس ضرور ہو تا ہے کاش اس وقت بچوں کو وقت دیا ہو تا۔
کسی بھی بچے کی زندگی میں اس کی عمرابتدائی کے پند رہ بیس سال بہت اہم ہو تے ہیں۔ یہ کسی بھی انسا ن کا لڑکپن سے پختگی کے درمیان کاعرصہ ہو تا ہے۔اس میں بچپن وا لی شرارتیں اور کھیل کو دبھی ہوتا ہے اور آزادی سے کسی کا م کو کر نے کی خو اہش بھی ہو تی ہے‘ جس میں اس بچے کو فیصلہ کر نے کا خود اختیار حاصل ہو اس عمر میں انسا نی دما غ کی تعمیر اور ترتیب مکمل ہو رہی ہو تی ہے ۔
پیدائش سے لے کرکم ازکم بیس سال کی عمر تک والدین کو اس عرصہ میں اہم کردار ادا کر نا ہو تا ہے۔ والدین کی بچوں سے دوری‘ زیادہ آزادی‘ یا پھر والد ین کی طر ف سے احساس ذمہ داری سے فرار‘یاگھر یلوجھگڑوں کی وجہ سے بچے کی شخصی تعمیر میں کمی رہے جا تی ہے۔اس عمر میں بچہ یا تو آزادی چاہتا ہے ‘یا زیادہ آزادی کی وجہ سے والدین کو اہمیت نہیں دیتا ہے ‘یا پھر گھر یلو جھگڑوں کی وجہ سے معاشرے سے نفرت کر تا ہے۔ ان سب صورت حا ل کی وجہ سے بچہ ہمیشہ غلط اور انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔
بچے پر نظر رکھیں ‘ اس کا بیگ چیک کرتے رہیں
لیکن کسی پولیس والے کی طرح نہیں
کسی بھی انسان کی بچپن میں کر دار سازی کے لئے تو بہت سارے عوامل کارفرما ہو تے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہم والد ین ‘استاد ‘ اور معاشرہ ہے‘ معاشرے کے مسائل خاص کر بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ‘ جس کے اثرات کی وجہ سے پورا خاند ان اورمعاشرہ متا ثرہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے کے ایسے مسائل جو ہمارے بچوں پر اثر انداز ہو تے ہیں یہ مسائل ہمیں فطرت نے نہیں دیے ہیں بلکہ یہ ہمارے ہی پیداکر دہ ہوتے ہیں ۔
ماہر ین نفسیات کے نزدیک انسا ن اپنے کر داراورو رویوں میں تبدیلیا ں لا کر ان معاشرتی مسائل سے نجا ت حاصل کر سکتا ہے ۔ماہر ین کے نزدیک کسی بھی انسان کا پیدائش سے لے کر تقریباً بارہ سال کی عمر تک کا عرصہ اس کا بچپن شمارہو تا ہے ایک سال سے پا نچ سال تک کے بچے دنیا کو خود دریافت کر رہے ہو تے ہیں اس میں وہ ہر چیز کو چھو کر سونگھ کر چکھ کر دیکھتے ہیں ۔یہ ان کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہوتا ہے‘ اس عمر میں عموما ً بچے اپنے کھلونوں سے کھیلنے کی بجا ئے ان کو جا نچنے کے لئے توڑتے ہیں‘کہ یہ کا م کیسے کرتا ہے ۔دیواروں اور فرش کے سوراخوں اور بجلی کے سوئچ میں انگلیاں ڈال کر جانچ پڑتال کر تے ہیں۔ گھر میں مو جو د بڑے یعنی ماں باپ‘دادی دادا یا گھر کا کوئی بڑا ان پرنظر رکھ کے ان کا خیا ل کر تا ہے‘لیکن ان کو کھیلنے کی آزادی ہو تی ہے۔
پا نچ سال سے دس سال کے بچے زیادہ تر کھیل کود کو پسند کر تے ہیں اور اس کھیل کو د کی وجہ سے لاپروہی کی طر ف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے دو سے پا نچ سال تک کے بچوں کو ہاتھ دھونے ‘برش کرنے ‘سلام کرنے‘ اور دیگر آداب سکھائے جا تے ہیں‘ ایسے ہی پا نچ سال سے بڑے ہو تے بچوں میں ان عادات کو چھو ڑنے کی لا پروہی شروع ہو جا تی ہے۔ کیونکہ والدین سمجھتے ہیں بچہ ایسے چھو ٹے کا م خود کر سکتا ہے‘ جس کی وجہ سے تو جہ میں کمی ہو نے پر وہ ان کا موں کی پرواہ کرنا چھو ڑ دیتا ہے۔
اس عمر میں والدین صرف بچوں سے ان کے متعلق پوچھ لیں اور کبھی خود چیک کر لیں تو بچہ لا پرواہی چھو ڑدیتا ہے۔ اور اس کے ذہن میں والد ین کی طر ف سے پوچھے جا نے کا خیال رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے بچے کی عاد ت ان کاموں کی بنی رہتی ہے۔ ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچہ پا نچ سال تک اچھی عادتوں کا حامل ہو تا ہے پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہو رہا ہو تا ہے۔ وہ یہ عادتیں چھوڑ رہا ہو تا ہے اور والدین کہتے ہیں ‘ کہ یہ بچپن میں ایسا نہ تھا ‘اب ایسا کیوں ہو گیا ہے۔
دراصل والدین کی توجہ میں کمی اورلاپرواہی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہو تا ہے۔
ما ہر ین نفسیا ت کے نز دیک بچہ والدین سے ہی اخلا قی قدریں کا معیا ر اپناتا ہے۔ بچہ جب تک سکول نہیں جا تا تب تک اس میں جتنی بھی عادات اور اقدار ہو ں گے ‘وہ اس گھر اور خا ندان کی اخلاقی معیا ر کی نما ئند گی کررہا ہو گا ۔بچہ والدین سے ہی اپنی ثقافت کے آداب ‘ رسومات ‘ روایات‘ طور طر یقے ‘قوائدوضوبط سیکھتا ہے ‘اور ان پر عمل کر نے کا پا بند ہو تا ہے۔ اس لئے والدین بچوں کی خا طر اپنے اندر ضرور تبدیلی لے آئیں۔
جب بچہ سکول جا تا ہے تو وہ زیادہ تر وقت سکول میں گزارتا ہے‘ ویسے سکول والے اکثر کہتے ہیں کہ بچے زیادہ وقت گھر گزارتے ہیں‘ دراصل بچے دن کازیادہ وقت سکول میں گزارتے ہیں‘ اور سکول والے بچے کا رات کا وقت گھر میں شامل کر کے اس لئے کہتے ہیں کہ بچہ زیادہ وقت گھر میں گزارتا ہے ۔ جب بچہ دوپہر کے بعد سکول سے واپس آتا ہے تو اس کے پاس جو وقت بچتا ہے اس میں کھا نا‘ آرام ‘کھیل اور ہو م ورک‘ ٹیوشن کے بعد وہ رات کو سو جا تا ہے۔
سکول میں گزرنے والا وقت بچے کی شخصی تعمیر میں اہم ہو تا ہے اب سکول کے معا ملے میں والدین ہر طر ح سے ذاتی تحقیق کے بعد بچے کو سکول میں داخلہ کروائیں ۔ بچہ استاد کو اپنا آئیڈیل سمجھتاہے استا د بچے کوتعلیم کے ساتھ معاشرتی اقداروں کی تربیت دیتا ہے۔ جس میں استاد بچے کو نظم وضبط ‘صفائی ‘فرما نبرداری ‘ احساس ذمہ داری ‘ مل جل کر رہنے جیسی تربیت دیتا ہے‘ساتھ ہی بچے کی ذہنی صلاحیتوں میں نکھا ر پیدا کر تا ہے۔
ما ہر ین کے نزدیک بچہ استا د ہی کی مدد سے مختلف رویے سے سیکھتا ہے‘ جیسے ملک سے محبت ‘ دوسرے بچوں کے ساتھ رویہ ‘ ہمسا یوں ‘ ‘ ہم وطنوں کے ساتھ رویوں کی تشکیل وغیر ہ کی تربیت سکو ل میں استا د ہی سے سیکھتا ہے ۔اس ان سب باتوں کو مد نظر رکھیں جب بھی بچے کو سکول میں داخل کر وائیں اس کے معیار میں خاص کر اخلاقی تربیت ‘ڈسپلن ‘ سربراہ ادارے کے بارے میں ضرور تحقیق کر لیں ۔
ان تمام با تو ں کے با وجود بھی بھاری ذمہ داری والد ین پر عا ئید ہو تی ہے۔ اکثر والدین ذاتی مصروفیات‘ نوکری‘ کا روبار ‘ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے کر ان کی حق تلفی کرتے ہیں۔بچوں کے لئے وقت نکا ل کران کے ساتھ وقت گزاریں جب بچہ سکول سے واپس آئے تو شام کو اس کی ڈائری ہوم ورک کلاس ورک کا جا ئزہ لیں ‘بچے سے باتیں کر یں‘ سکول اور تعلیم کے متعلق پوچھیں ‘اس سے سکول کے دوستوں اور کلاس فیلوز کے بارے میں سوالات کر یں۔
اگر آج آپ کے پاس آپ کے بچے کے لیے وقت نہیں ہے تو کل
اس کے پاس بھی آپ کے لیے وقت نہیں ہوگا ‘ یہی تو آپ نے سکھایا ہے اسے
بچے کی گھراورسکول میں کی جا نے والی شرارت یا غلطی پر سمجھا ئیں ‘اگرزیادہ سختی سے برتاو ٔ کریں گے تو بچہ اپنی باتیں آپ کو نہیں بتا ئے گا۔ بعد میں اپنی غلطی کوتسلیم کر نے کی بجائے آپ سے جھو ٹ بول دے گا ۔اس کے علا وہ وہ اپنی خواہشات کا بھی اظہار بھی والد ین سے نہیں کرے گا۔ گھر میں بچوں کے ساتھ اعتماد کا ما حول بنا ئیں اس کے بیگ کو بہا نے سے چیک کریں‘ کہ وہ کسی اور بچے کی چیزیں تو نہیں لے آیا اور اس بات کا خیال کر یں کہ بیگ کو پولیس والوں کی طرح چیک نہیں کر نا‘ جس سے بچہ اگر کوئی چیز لے بھی آتا ہے تو وہ گھر آنے سے پہلے اس کو کسی اور جگہ رکھ نہ آئے ۔
بچے سے رات کو سکول کا بیگ تیا ر کر وا کے رکھ دیں یا پھر کتابوں کو چیک کر نے کے بہا نے بیگ کو دیکھ لیں‘ بچہ گھر سے تو کوئی چیز لے کر نہیں جا رہا ہے ‘ماضی میں جن بچوں نے خود کشی کی تھی ‘وہ اسلحہ گھر سے ہی لے کر گئے تھے ‘بچوں کو ہفتے میں ایک دو بار پارک وغیرہ لے جا ئیں ان کے فارغ اوقات میں ان کے کھیل کود میں بھی شامل ہوں ‘اس سے بچے میں خود اعتمادی مزید بڑھے گی ‘گھر سے باہر دوستوں کے بارے میں بھی معلوما ت رکھیں ‘اس کے دوست کیسے ہیں ۔
جو والدین خاص کر باپ بچوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو بچے دوستوں کی بجا ئے والدین سے زیادہ لگاو ٔ رکھتے ہیں۔ان میں خوداعتمادی بڑھتی ہے ۔یاد رکھیں اگر والدین بچوں کو ان کے بچپن میں وقت نہیں دیتے توآپ کے بڑھاپے میں ان بچوں کے پا س وقت نہیں ہوگا‘ پھر وہ دولت کے انبا ر جو بچوں کے لئے لگا ئے تھے جن کی ان کو ضرورت نہیں تھی ‘ان کو تو اپنے ما ں با پ کی ضرورت تھی۔پھر اس وقت کیا کر یں گے جب وقت اور ان کا بچوں کا بچپن ہاتھ سے نکل جا ئے گا ۔
یورپ میں والدین چھو ٹے چھو ٹے بچوں کو کئیرسنٹرز میں چھو ڑ کر کا م پر چلے جا تے ہیں۔ جب بچے کچھ بڑے ہو تے ہیں تو وہ گھر چھو ڑ جاتے ہیں ‘اور جب والدین بوڑھے ہوتے ہیں تو یہی بچے ان کو اولڈ ہو م چھو ڑ آتے ہیں۔ یورپ کے معاشرے میں لو گ مل جل کر نہیں رہتے ہیں گھر کا ہر فر د اپنی زندگی اپنی مر ضی سے جیتا ہے ایسے میں ایک دوسرے سے دور ہو نے کی وجہ سے بچے رشتوں کی اہمیت سے نا واقف ہوتے ہیں ۔پھر وہ اپنے پا لتو ں جا نوور ں کتوں بلیوں سے تو پیار کر تے ہیں پر خونی رشتوں سے محبت نہیں کر تے۔
اس کے علاوہ سب سے اہم بات ہمیں اپنی ذات کا جا ئز ہ لیں اپنے کردار کا احتساب کر یں ‘اپنی کما ئی میں حلال حرام کا فرق کر یں ‘جس کا اثر اولاد پر ضرور ہوتا ہے۔ یادرکھیں اولاد سے بڑھ کر اس دنیا میں قیمتی کو ئی چیز نہیں ہو تی جو ہماری کل کا ئنا ت اور کل سرمایہ ہے ۔خدارا! ان کو وقت دیں ان کے ساتھ وقت گزاریں ان کی بہتر تربیت کر یں تو یقین کر یں آپ نے اپنی دنیا بھی بنا لی اور آخرت بھی بنا لی۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں
عبدالجبارخان دریشک کا تعلق بلوچستان کے ضلع راجن پور سے ہے‘ ماس کمیونی کیشن میں ایم ایس ماس کی ڈگری کے حامل ہیں اور ساتھ ہی ایل ایل بی کی سند بھی رکھتے ہیں۔
ان سے مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
[email protected]