ملک شفقت اللہ
اگر دیکھا جائے تو جسمانی غلامی اتنی معیوب نہیں جتنی ذہنی غلامی ہے ۔ اگر کسی قوم کی فکر اور سوچ آزاد نہ ہو تو وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کرتی ، اور موقع پاتے ہی خود کو آزاد کروا لیتی ہے ۔جبکہ کسی قوم کا ذہنی غلامی میں مبتلاء ہو جانا اس کے اندر سے سوچنے تک کی صلاحیت کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے ۔ذہنی غلامی کا شکار قوموں کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں ، جیسے کو ئی ریوڑ ہانکا جا رہا ہو۔ نہ تو سوچنے کی صلاحیت رہتی ہے اور نہ ہی حالات کو اپنی نظروں سے دیکھتی ہیں بلکہ ان کے آقا جس طرف چاہتے ہیں ان کی سوچوں کا رخ موڑ دیتے ہیں ، پھر اس پر ستم بالائے ستم کہ یہ بے چارے غلام یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آزاد سوچ کے مالک ہیں ۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں کو ہر قدم نازک حالات سے نبرد آزما ہونا پڑا ۔ احمد مجتبیٰ ، نبی آخرالزماں ﷺ کے وصال کے فوراً بعد اٹھنے والا ارتداد کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نا تھا ۔ اگر اسلام کی بجائے دنیا کا کوئی اور مذہب ہوتا تو اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا ۔ لیکن اس خطرناک فتنے سے مسلمان سرخرو ہو کر نکلے ۔1258ء میں فتنۂِ تاتار در حقیقت ساری دنیا سے مسلمانوں کا وجود مٹا دینے کی سازش تھی ۔ تاتاری ایک کے بعد ایک مسلم علاقہ فتح کرتے جاتے تھے ، یوں لگتا تھا کہ اس تباہی مچاتے خونی سیلاب کو کوئی نہیں روک پائے گا ۔ کیونکہ کسی قوم کے لیے اس سے بڑی مایوس کن ، خوف کی بات کیا ہو گی کہ اس کے دارالخلافہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے ،اور خلیفۂِ وقت کو چٹائی میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا جائے ۔لیکن اس سب کے با وجود بھی مسلمان ہمت نہیں ہارے اور تاتاریوں کے خلاف میدانِ جہاد میں نکل آئے اور بالآخر ان کو شکست دی۔
غرض یہ کہ جب تک مسلمانوں میں خلافت رہی مسلمان کبھی کسی قوم کے ذہنی غلام نہیں بنے بلکہ ان کی سوچیں ہمیشہ آزاد رہیں ۔لیکن خلافت ٹوٹنے کے بعد جہاں ایک طرف مسلم علاقوں پر کافر قبضہ کرتے چلے گئے وہیں ان کے ذہن بھی کافروں کی غلامی میں جاتے رہے ۔ا س غلامی کے اثرات اتنے مؤثراور دیر پا ثابت ہوئے کہ جسمانی آزادی کے باوجود بھی مسلمان ذہنی طور پر کافر طاقتوں کے غلام ہی رہے ۔ذہنی غلامی کی سب سے بڑی نحوست یہ ہوتی ہے کہ ایسی قومیں اچھے کو برا، برے کو اچھا، نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع، دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن سمجھ رہی ہوتیں ہیں ۔
اس ذہنی غلامی کے زہریلے اثرات نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ اس دور میں اسلامی خلافت کی کوئی ضرورت نہیں ، اور اب جمہوریت کا دور ہے ۔اس طرح جمہوریت کو اسلامی خلافت کا نعم البدل قرار دیا گیا ۔اسی ذہنی غلامی نے مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے مطابق سوچنے کی صلاحیت سے قاصر کر دیا کہ وہ حالات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تجزیہ کر سکیں ۔امریکہ کی عالمِ اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کو مکمل اقتصادیات کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ عالمِ کفر خود اس جنگ کو مذہبی ہونے کا اعلان کر رہا ہے ۔
غلام ذہنوں کے مالک نام نہاد دانشور وں کے بقول عراق پر قبضہ تیل کی دولت پر قبضہ اور افغانستان پر قبضہ وسطِ ایشیاء کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔ایسے دانشوروں کے بارے میں صیہونی طاقتیں کہتی ہیں کہ یہ لوگ ہمارے ہی ذہن سے سوچتے ہیں‘ جو رخ ہم ان کو دیتے ہیں یہ اسی پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں ۔لیکن میری نظر میں جہاں تک تعلق وسائل پر قبضے کا ہے تو اگر آج سے ایک صدی پہلے جنگوں کے بارے میں کہا جاتا تو کسی حد تک درست تھا لیکن اس دور میں ان جنگوں کو تیل اور معدنی وسائل کی جنگ کہنا اس لیے درست نہیں کہ امریکہ پر حکمرانی کرنے والی اصل قوتیں اب تیل اور دیگر دولت کے مرحلے سے بہت آگے جا چکی ہیں ۔ اب ان کے سامنے آخری ہدف ہے اور وہ اپنی چودہ سو سالہ جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں ۔
دنیا کے تمام وسائل پر اگرچہ امریکہ کا قبضہ نہیں ہے لیکن ان تمام وسائل پر ان یہودیوں کا قبضہ ہے جن کے قبضے میں امریکہ ہے جبکہ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ افغانستان ، عراق، شام اور دیگر مسلم ممالک پر چڑھائی کرانے والی وہی قوتیں ہیں تو پھر ایسی چیز جو ان کے پاس ہے ‘ اس کو حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنے کو بھلا کیا ضرورت پیش آ سکتی ہے ؟ میرے کہنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ ان وسائل سے امریکہ کو کوئی سروکار نہیں! سروکار ہے! لیکن ان جنگوں کا پہلا مقصد یہ وسائل نہیں بلکہ جو محمدِ عربی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیا ہے ۔
ان جنگوں کو اقتصادی جنگ کا نام دینے کا صرف یہی مقصد ہے کہ مسلمان ان جنگوں کو مذہبی جنگ نہ سمجھنے لگیں کہ یہ چیز ان کے اندر جذبۂِ جہاد اور شوقِ شہادت کو زندہ کر دیگی ۔سوچو ں میں اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان موجودہ حالات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی بنیاد مغربی میڈیا کے تجزیے اور تبصرے ہوتے ہیں ۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے سوچنے کا انداز مغربی ہے اور لوگ مغرب کی ذہنی غلامی کا شکار ہیں ۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی قوم کا اپنے عقیدے اور نظریے ، اپنی بنیادوں اور اصولوں سے گہرا تعلق رہے گا وہ قوم اس وقت تک کسی کی ذہنی غلام نہیں بن سکتی۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اسی وقت تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے جب تک اس کا اپنے افکار و نظریات ، عقیدے اور اصولوں کے ساتھ گہرا تعلق رہتا ہے ۔چنانچہ اگر آج بھی ہم اپنی منزل کو پانا چاہتے ہیں اور حالات کو درست اندا ز میں سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اصولوں اور بنیادوں کی طرف لوٹنا ہوگا ۔جب تک ہم پتہ نہیں لگا لیتے کہ موجودہ دور کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں تب تک ہم صورتِ حال کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتے۔علامہ اقبال نے ذہنی غلام قوموں کی حالت کو اس ایک شعر میں بیان کر دیا ہے
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں