سنہ 2018ءمیں اے آروائی فلمز کی پہلی قومی زبان میں ریلیز ہونے والی فلم ”پرچی“ جس کے مرکزی کردار عثمان مختار، حریم فاروق اور علی عبدالرحمان نے ادا کئے، اس فلم کو سنجیدہ طبقے نے بہت پسند کیا اور مزے کی بات دیکھیں کہ گزشتہ دنوں فلم ”پرچی“ کی کاسٹ نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے خصوصی ملاقات کی اور فلم کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈال کر ایک نئی روایت کو جنم دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں2017ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ نے کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ۔اس موقع پر گزشتہ دنوں ہمایوں سعید نے گفتگو کے دوران بتایا کہ اس میدان میں نئے لوگوں کے آنے سے فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہوتا جارہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انڈسٹری کے حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں، بہت جلد انڈسٹری کا بحران ختم ہوجائے گا اور مجھے امید ہے کہ فلم انڈسٹری دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی
فلم انڈسٹری کی رونقیں بحال کرنے میں اے آروائی فلمز نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اور خوب صورت فلم ”اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور“ ایک سپرہٹ فلم ثابت ہوئی۔
دنیا بھر میں فلموں کے فروغ کے لئے ”اینیمیٹڈ“ فارمولا بہت کامیاب رہا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملٹی پلیکس سینماؤں کا اس حوالے سے کردار بہت اعلیٰ رہا۔ 2002ءسے ملٹی پلیکس سنیماؤں نے شائقین فلم کو بہت کچھ دیا مگر چونکہ ناتجربے کار اور کاروباری ہدایتکاروں نے اس انڈسٹری کو تباہی کے کنارے لگادیا۔
ویسے فلم انڈسٹری کی تباہی کے سبھی ذمے دار ہیں، آج سے دس سال قبل فنکاروں نے بھی اس انڈسٹری کو تباہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ میں نے10 یا 15 سال پہلے کسی سپرہٹ فنکار سے نہیں سنا کہ میں انڈسٹری کی بہتری کے لئے اپنا معاوضہ آدھا کرتا ہوں، تاکہ معاشی طور پر کمزور پروڈیوسرز بھی ہمت کریں اور میدان میں آسکیں۔
راقم آج سے15 سال قبل لاہور کے تمام اسٹوڈیوز میں پروڈیوسرز کے دعوت نامے کے تحت کراچی سے لاہور جاتا رہا اور اپنی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا، اس وقت ایک ہیرو تو ایسا بھی تھا جو گھنٹوں کے حساب سے معاوضہ لے رہا ہے اور جن فلمسازوں کو تاریخیں دے رکھی تھیں وہ بے چارے سیٹ تیار کرکے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے۔ یہی حال ہیروئنوں کا تھا، نخرے تھے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے، ویسے سب مل کر کہتے تھے کہ فنکار تو ملک کے سفیر ہوتے ہیں، فن کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ ان میں ایسے ہدایتکار بھی تھے جو ٹھیکے پر فلمیں بنارہے تھے، آج وہ ہدایتکار ہیرو، ہیروئن سب فارغ ہیں اور گھر پر بیٹھے ہیں۔
یہ مکافاتِ عمل ہے پھر پاکستان میں سب سے پہلےاے آروائی نیٹ ورک کے روحِ رواں سلمان اقبال نے ہمت کی اور اے آروائی فلمز کا آغاز کیا، یہ قافلہ بنتا چلا گیا اور اب ایک قبیلے کی طرح اے آروائی فلمز میں بسنے والے کام کررہے ہیں۔ تین بہادر، جوانی پھر نہیں آنی، پنجاب نہیں جاؤں گی، یہ فلمیں اے آروائی فلمز کی کامیابی کے سفر میں سنگِ میل ثابت ہوئیں۔
حالیہ ریلیز ہونے والی فلم ”اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور“ کی ریلیز کے بعد کامیابی نے ثابت کردیا کہ اے آروائی فلمز نے اب اس ٹریڈ کو جو آکسیجن دی تھی، وہ کامیابی کی شکل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کا اعزاز صرف اے آروائی فلمز کو جاتا ہے ۔اس فلم کا مرکزی کردار ”اللہ یار“ ہے اور اس کا باپ پاکستان رینجرز میں ملازمت کرتا ہے۔
کہانی، مکالمے اور منظرنامہ یہ تینوں شعبے ہدایتکار عزیر ظہیر خان نے کئے اور خوب کئے، وہ ان تینوں شعبوں میں بہت کامیاب رہے، خاص طور پر وائنڈ اپ انہوں نے بہت خوبصورتی سے کیا۔ فلم کے موسیقار اور گیت نگار احمدعلی ہیں، انہوں نے ماضی میں ذوہیب حسن کا خوب صورت گیت ”تیری زندگی میں یوں تو کئی درد آئیں گے“ جسے نتاشا حمیرا اور اعجاز نے گایا اور خوب گایا بلکہ یہ کہنا جائز ہے کہ انہوں نے ذوہیب حسن کی یاد دوبالا کردی یعنی تاریخ نے اپنے آپ کو پھر زندہ کردیا۔
فلم کی صدابندی محمد عظیم نے کی ہے جو آج کی انڈسٹری کا بہت مستند نام ہے‘ وہ ایک بہترین تدوین کار ہیں۔ ہر منظر کو بہترین شوٹ کیا اور خاص طور پر خوب صورت نغمہ ”تیری زندگی“ کو شائقین فلم نے بہت پسند کیا۔
فلم میں سارے مکالمے، شاعری اور پسِ پردہ آوازیں، آج کے کامیاب پوسٹ انجینئر رضوان اے کیو نے انجام دیئے، عروج اعظم نے اس فلم میں عکاسی کے فرائض انجام دیئے اور خوب دیئے کہ فلم کی اسکرین سے شائقین کی نظریں ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ مرتضیٰ سعید نے ورچوئل سیٹ پر کافی محنت کی ہے، خاص طور پر وادی ہنزہ کو بہت اعلیٰ دکھایا گیا، مرکزی شاہراہ اور راکاپوشی کے مناظر تو ایسےتخلیق کئے جیسے واقعی یہ اصل ہیں۔
فلم کی اداکاری میں اور جن فنکاروں نے صداکاری کی، ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہوگا۔ صدا کاری میں انعم زیدی اللہ یار، نتاشا حمیرا اعجاز مارخور، مہرو، ، علی نور، اریب اظہر، ارشد محمود، امجدعلی اور دیگر شامل تھے۔ شائقین فلم نے اپنے فنکاروں کو بہت پسند کیا، فلم کے ہدایتکار عزیر ظہیر ہیں، وہ اس فلم کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے کیا خوب صورت تحریر لکھی اور پھر ایک اعلیٰ فلم تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے آروائی فلمز کی ریلیز ہونے والی فلموں میں ”اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور“ ایک اچھا اضافہ ثابت ہوئی ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں