The news is by your side.

پاکستان کی تاریخ کا اہم باب۔۔ قدرت اللہ شہاب

قدرت اللہ شہاب ۔۔ان لوگوں میں سے ہیں جو’’زہر ِہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکے قند‘‘۔ان کی شخصیت عجز و انکسار ی،صبر واستقلال،جرأت مندی،فرض شناسی،حب الوطنی،ادب نوازی،دیانت داری،انسان دوستی،سادگی اور تصوّف کا ایک ایسا خوبصورت مرقع رہی جس کے ہر رنگ میں سو رنگ پنہاں تھے۔

قدرت اللہ شہاب اپنے ذوق حقیقت اور ادبی زیبائی سے پاک و ہند میں جانے جاتے ہیں۔

انہوں نے اپنے بار ےمیں لکھا کہ۔۔

میری زندگی میں کوئی خاص فلسفہ نہیں ، البتہ زندگی کے ہر موڑ پرا یک نیا تجربہ ضرور پایا، کبھی تلخ کبھی شیریں اور ان کے الجھاؤ اور سلجھاؤ میں کئی درس بھی ملتے رہے ، جنھیں میں نے اپنی ذاتی زندگی کے لیے مشعل راہ پایا۔

قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے ،جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل ہیں۔

یحییٰ خان کا زمانہ قدرت اللہ شہابؔ کے کرب و بلا کا دور تھا۔ وہ لندن میں پناہ گزین تھے۔ یونیسکو سے ایک سو ڈالر ماہ وار ملتے تھے۔ اسی پر گزارہ تھا۔ پنشن ضبط ہوچکی تھی۔ وفا شعار بیگم اور ایک بچے کے ساتھ فاقوں کا دور بھی آیا۔ اسی فاقہ کشی نے بیگم کو نڈھال کردیا اور وہ ثاقب شہاب کی شکل میں یادگار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملیں۔ اسی دوران شہاب صاحب نے فلسطین کےمقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا ۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہو گیا ۔۔جو ان کی فلسطینی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خدمت تھی۔

اردو ادب کی تاریخ میں قدرت اللہ شہاب کا اہم مقام ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ 1938میں ’’چندراوتی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب اردو افسانے کے افق پر سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر،مرزا ادیب اورممتاز مفتی جیسے افسانہ نگار ستاروں کی مانندروشن تھے۔ کتاب کے مصنف کی کامیابی یہی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کومتاثر کرجائے۔شہاب نامہ پڑھ کے ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے قدرت اللہ شہاب کو معلوم ہے کہ قاری کے دل میں گھر کیسے کیا جاتا ہے ؟

شہاب خود لکھتے ہیں کہ۔۔

افسانے کے متعلق میں میرا کوئی فن نہیں ،بس اتنا چاہتا ہوں کہ لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کا دل خوش ہو۔

ممتاز مفتی کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے اپنے ایک مضمون میں لکها ۔۔

سچ تو یہ ہے کہ جب میں پہلے پہل ممتاز مفتی سے ملا تو میں نے فورافیصلہ کرلیا کہ بس یہ آدمی ضرور میرے ڈهب کاہے۔ گرمجوشی میں وه جیسے گندهک کا ابلتا چشمہ ،سرد مہری ایسی گویا جماہوا گلیشئیر ،نرمی میں روئی کی بتی جو مدت سےمٹی کے دیئے میں سرسوں کے تیل میں گری ہو۔ سختی میں نائی کا استرا، مٹهاس کا موڈہو تو رس کا گھڑا ،ورنہ نرا پرا روکھا پھیکا کھدر سا لا تعلق انسان جو اپنے دل کی کڑوی سے کڑوی لیکن سچی بات یوں کر گزرتاہے جیسے موسم کا حال بیان کر رہا ہو ۔

قدرت اللہ شہاب کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی، سرخ فیتہ اور ان کی خود نوشتہ سوانح حیات “شہاب نامہ“ قابل ذکر ہیں۔

’شہاب نامہ‘ مسلمانان برصغیرکی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ان کی تحریر شخصیت پرستی کے اثرات سے پاک ہے۔ انھوں نے دوسروں کے بارے میں اپنی آرا کا بے باک اظہار کیا ہے۔اس میں نہ کسی مصلحت اندیشی کو دخل ہے اور نہ مبالغہ آرائی ۔

زبان و بیان کے حوالے سے ’’شہاب نامہ‘‘ایک بے مثال کار نامہ ہے۔ایسا کارنامہ جس کی نظیر ملنامشکل ہے۔ اس کا اسلوب بڑا دلچسپ اور دلکش ہے۔یہ ذہن و دل کو تھکا دینے کے بجائے ان کو تازگی اور لطف وانبساط بخشتا ہے۔اس میں شوخی بھی ہے اور شگفتگی بھی،طنز کی کاٹ بھی ہے اور ظرافت کا عنصر بھی،حقیقت بھی ہے اور افسانویت بھی،ایجاز بھی ہے اور اختصار بھی، رومانویت بھی ہے اور تصوّف کا گہرارنگ بھی۔اس کی دیواروں کو مختلف رنگوں سے سجایاگیا ہے۔ان رنگوں میں خاکہ نگاری،منظر نگاری،سوانح نگاری،تاریخ نگاری،جزئیات نگاری،مکالمہ نگاری،کردار نگاری اورواقعات نگاری کے رنگ بھی شامل ہیں ۔

شہاب نامہ کے آخری 2 ابواب نے قدرت اللہ کی شخصیت پر بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔

مذکورہ ابواب میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کئی برس تک ایک خفیہ شخصیت کی جانب سے ہدایات موصول ہوتی رہیں۔ اس شخصیت کو انہوں نے ’نائنٹی‘ کے نام سے پکارا ہے۔ان کے مطابق ایوان صدر میں اہم فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی خفیہ روحانی قوت تھی جو ان سے ملک کے مفاد میں بہتر کام کرواتی۔

اس باب میں انہوں نے مختلف روحانی شخصیات سے اپنے خصوصی تعلق اور رابطوں کو بھی بیان کیا ہے۔

ممتاز مفتی کا کہناہے کہ۔۔

اگر قدرت اللہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں ’نائنٹی‘ کا باب شامل نہ کرتے تو وہ کبھی یہ کتاب نہ لکھتے۔

ممتاز مفتی نے ناقدین کو ان الفاظ سے چپ کرادیا کہ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا راز کھول دیا اور اس کے لیے بھی ان کو یقیناً حکم دیا گیا ہوگا۔

قدرت اللہ شہاب کی وفات کے بعد ان کے بارے میں شائع ہونے والی کتابیں ”ذکر شہاب”مردا بریشم”خاص طور پر مقبول ہوئیں۔ان کے خطوط کے مجموعے بھی چھاپے گئے ۔پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل قدرت اللہ شہاب کی کوششوں سے عمل میں آئی۔حکومت پاکستان کی جانب سے ان کو ستارہ قائداعظم اور ستارہ پاکستان ملا۔ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آباد کے سیکٹرکے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں