The news is by your side.

شاعری کیا ہے؟

پوچھتے ہیں یہ شاعری کیا ہے
ہائے ایسی بھی سادگی کیا ہے

دنیا بھر میں 21 مارچ کو منایا جارہاہے شاعری کا عالمی دن۔ یونیسکو کے زیر اہتمام یہ دن منا نے کا مقصد شاعروں اور شاعری کی پذیرائی کرنا اور اس کی ترویج کرنا ہے۔ یونیسکو نے فنون اور ثقافتوں میں شاعری کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 1999ء میں شاعری کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا ۔شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور اس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں شاعر رہتا ہے، صرف فنِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں، شاعری ہیں۔

اس کی تعریف ایسے بھی مناسب ہے،شاعری ان منظم جذبات کا نام ہے جو فی البدیہہ نازل ہوتے ہیں۔۔۔ ان جذبات کے اسبا ب مختلف ہو سکتے ہیں‌۔ یا پھر،جو ہو جائے وہ شاعری، جو کرنی پڑے وہ تک بندی۔

بقول کسی شاعر۔

غزل میں صرف بندش و الفاظ ہی نہیں کافی
جگر کا کچھ خون بھی چاہئے اثر کے لیے

شاعری کیا ہے؟ کیسے کی جاتی ہے؟ اس کے عوامل کیا ہیں ؟ کیا یہ کوئی سائنس ہے یا فن؟ ،کون سے رموز کی پیروی کرنی چاہیے؟ کس طرح اسے خوبصورت بنایا جاسکتا ہے ؟۔

مذکورہ بالاسوالات کو ذہن میں رکھے بغیر کچھ افراد طبع آزمائی کرتے نظر آتے ہیں ، جس کے باعث اردو کی اس نازک صنف کاستیاناس لگتا جارہا ہے ، ان کی دیکھا دیکھی نوآموز تک بندوں نے بھی شاعری میں اپنے قلم کی دھار تیز کرنا شروع کردی ، جن میں سر فہرست ہم خود ہی ہیں ۔

اک دورتھا جب شاعری کو اک سہل پیغام سمجھا جاتا تھا اور اب حال یہ ہے کہ پیغام ختم ہے اور شاعری سہل۔

شعر کیا ہے؟

شعر کا لفظ تاریخی طور پہ شعور سے نکلا ہے یعنی کسی چیز کو جاننا اور جدید اصطلاح میں ایسا کلام جو کسی واقعے یا موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہو۔اور اسکے کہنے کا کوئی مقصد بھی ہو۔

شاعری کی شرائط کیا ہیں؟

شاعری کا جوہر لکھنے والے کا تخیل ہوتا ہے۔خیالات کی وسعت اور کسی واقعے یا چیز کے متعلق اس کی سوچ کا پھیلاؤ۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے شاعر ایسے واقعات بھی جو اس نے دیکھے نہیں ہوتے بلکہ صرف پڑھے یا سنے ہوتے ہیں ان کو اس طرح بیان کر جاتا ہے جیسے اس کے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہوں،یہ تخیل ہی اسے زمانے کی قید سے آزاد کر دیتا ہے ۔ عام آدمی کے لیے صبح کا وقت صرف طلوع ِآفتاب ہے لیکن شاعر کے لیے یہ وقت بہت سی گرہوں کی گتھی سلجھاتا نظر آتا ہے۔ جیسا کہ جوش نے کہا

ہم ایسے اہل نظر کو قبول حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی

تخیل کے ساتھ ساتھ دوسری شرط مطالعہ کائنات ہے یعنی اپنے ارد گرد اور آفاقی سچائیوں کو باریکی سے جاننا۔ یہ صلاحیت تخیل کی طرح خداداد بھی ہوتی ہے اور انساں کی اپنی خواہش پہ بھی منحصر ہوتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ،کتابوں سے دوستی اور اہل دانش کی صحبت بھی اس سلسلے میں راہنمائی کرتی ہیں ۔جنرل نالج جہاں سے بھی حاصل ہو اسے حاصل کرنا کامیاب ادیب اور شاعر کے لیے ضروری ہے اور ہر چیز کے مثبت پہلو کو جاننے کے لیے اس کےمنفی پہلو کا بھی پتہ ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پہ مذہب کے مطالعہ کے لیے ادیان کے تقابلی جائزے کا بھی علم ہونا چاہئے۔

تخیل کے بعد الفاظ کا چناؤ اور اظہار کا طریقہ معلوم ہونا چاہئے‘ یعنی کہ اپنے خیالات کو دوسرے کے سامنے کیسے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔شاعر اگر اپنے مشاہدے یا تخیل کو مناسب الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا تو ایسے شعر سے شعر نہ کہنا بہتر ہے۔۔۔مناسب الفاظ اور اظہار کیا ہے اس پر آگے جا کر تفصیل سے بات ہو گی۔

آمد اور آورد

آمد کا شعر عموما ایسے شعر کو کہتے ہیں جو شاعر کی ذہن میں بے ساختہ آئے اور اسی طرح لکھ لیا جائے۔ آورد سے مراد وہ شعر جو بہت غور و فکر سے مرتب ہو۔ دونوں کا اپنا اپنا حسن ہے اور اگر بعض اوقات بے ساختہ اشعار بہت خوبصورت ہوتے ہیں تو ایسے اشعار بھی اس سے کم نہیں ہوتے جو بہت غور و فکر کے بعد لکھے جاتے ہیں۔

شعر میں کیا باتیں بیان ہوں؟۔

شعر کا اصل حسن خیال کی پختگی اور بلندی ہے۔ حسن کو بہت زیادہ میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بہت زیادہ میک اپ سے حسن فطری دلکشی کھو دیتا ہے۔۔۔ بدصورتی میک اپ اور غازوں کی تہوں میں بھی بدصورتی ہی رہتی ہے۔۔ لہذا پہلی ضرورت خیال کا ارفع ہونا ہے۔ لفظیات کی باریکیاں اور انشا پردازی بھی بہت ضروری ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی خیال اور الفاظ کا چناؤ مل کر پائیدار شعر کی بنیاد رکھتی ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بحروں اور قافیہ ردیف کی بندشیں خیال کے حسن کو مقید کر دیتی ہیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ بندشوں اور لفظی میک اپ کے باوجود بھی خیال کا سطحی پن نہیں چُھپتا۔کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خیال بہت اعلی ٰہوتا ہے لیکن شاعر کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہوتے اس طرح اچھا بھلا خیال نامناسب الفاظ کی زد میں آ کر اپنی تاثیر سے محروم ہو جاتا ہے۔۔لہذا انشا پردازی اور خیال کا موازن ملن ہی اچھے شعر کی بنیاد ہوتا ہے۔

مختصر الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ شاعری انسان کے جمالی احساسات کو پرورش کرنے اور زندہ رکھنے میں ایک موثر ذریعہ ضرور ہے جو اسے فطرت کے قریب پہنچا کر سکون دیتی ہے ۔شاعری کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے، وہ جذبات کو انگیختہ تو کرتی ہے مگر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے شاعری سیاسی تحریک کے دوران لوگوں کو جذباتی طور پر ابھار تو سکتی ہے مگر انقلاب کا سبب نہیں بن سکتی ہے۔

اک ہلکا پھلکا سا جائزہ شاعری کی اصناف کالیتے ہیں

نظم

الفاظ اور خیالات کو کسی مقصد اور پیغام کے ساتھ ایک لڑی میں پرونا نظم کہلاتا ہے۔ اردو میں نظم کی کئی اقسام ہیں۔

غزل

غزل کا لفظ غزال سے نکلا ہے یعنی کہ وہ ہرن جسے زخمی کر دیا گیا ہو اور وہ درد سے کراہ رہا ہو۔۔۔دوسرے معانی میں صنف نازک سے باتیں کرنے کو بھی غزل کہا جا تا ہے۔غزل شاعری کی مقبول تریں صنف ہے۔

قصیدہ

وہ اشعار جن میں کسی کی توصیف و تعریف کی گئی ہو،،اس میں بھی غزل کی طرح لے کا خیال رکھا جاتا ہے البتہ یہ غزل سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔

مثنوی

اس میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیہ آتا ہے اور اسکی مخصوص بحریں ہوتی ہیں۔۔۔ فارسی میں مثنوی مولانا روم اور اردو میں مثنوی سحر البیان۔مثنوی گلزار نسیم اسکی مشہور مثالیں ہیں۔

رباعی

رباعی کا لفظ ربع سے نکلا ہے یعنی کہ چار۔۔اسمیں چار مصرعے ہوتے ہیں اور خاص بحروں میں ہی رباعی لکھی جا سکتی ہے۔

قطعہ

اس میں بعض اوقات چار شعر بھی ہوتے ہیں لیکن رباعی کی طرح نہ اس میں چار کی حد مقرر ہے اور نہ ہی مخصوص بحریں۔یہ کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے۔

مرثیہ

اس نظم میں کسی وفات پا جانے والے کے حالات زندگی اور عادات و خصائل کا بیان ہوتا ہے۔۔واقعی کربلا کو زیادہ تر مرثیہ میں ہی بیان کیا جاتا ہے اور میر انیس، مرزا دبیر اور امیر مینائی وغیرہ نے اسی صنف میں باکمال شاعری کی ہے۔

آزاد نظم

اس میں ردیف قافیے کی کوئی بندش نہیں ہوتی نہ ہی وزن کی پابندی ہوتی ہے۔۔یہ نظم کی جدید شکل ہے جو مغربی شاعری کی طرح لکھی جاتی ہے۔

قافیہ کیا ہے؟

ہم وزن الفاظ جو شعر کے دوسرے مصرعے میں ردیف سے پہلے آتے ہیں۔

ردیف کیا ہے؟

وہ لفظ یا الفاظ جو قافیے کے بعد میں بار بار آتا ہے یا آتے ہیں‘ ردیف کے لفظی معنی سوار ہوکر آنے کے ہیں۔

مثال کے طور پر اقبال کا یہ کلام

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں کھو گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

اس کلام میں “ آسماں،جہاں،عناں،بیکراں “ یہ ہم قافیہ الفاظ ہیں یعنی قوافی ہیں “ سمجھا تھا میں“ ہر قافیے کے بعد میں بار بار آ رہا ہے اس لئے یہ ردیف ہے۔

ترجیح بند

چند مصرعے ایک ہی قافیہ میں کہیں اور اسے ایک بند قرار دیں اور اس میں کسی اور قافیہ کا ایک شعر آخر میں لائیں اور اسی طرح بند اول کے مصرعوں کی تعداد کے برابر کئی بند کہیں۔ اور ہر بند کے آخر وہی بند اول کا آخری شعر بارہا لائیں وہ ترجیح بند کہلاتا ہے۔

ترکیب بند

ترکیب بند غزل کے طور پر ایک یا زیادہ مطلعوں کے ساتھ چند شعر لکھ کر ایک مطلع بطور گرہ کے لگاتے جائیں، اور بعد کے بندوں میں جو اشعار ہوں وہ پہلے بند کے اشعار ہی کے وزن پر کہے جائیں اور اس کا التزام رکھا جائے کہ ہر بند کا مطلع مختلف ہو۔ اگر مندرجہ بالا ایک ہی گرہ یا مطلع کی تکرار ہو تو اس کو ترجیح بند کہتے ہیں۔ ترکیب بند ہو یا ترجیح بند، ان کے ایک بند میں کتنے شعر ہوں، اور نظم میں کتنے بند ہوں، اس کی کوئی قید نہیں۔

تضمین

کسی دوسرے شاعر کے مصرعے یا پورے شعر یا غزل وغیرہ کو اپنے کلام میں اس طرح جگہ دینا کہ وہ ایک نئی نظم یا شعر کی صورت اختیار کر جائے، تضمین کہلاتا ہے۔ پوری غزل پر تضمین اس طرح ہوتی ہے کہ ہر شعر پر تین مصرعے لگاتے ہیں جو ہر شعر کے مصرع اولی کے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ شعر پر تضمین یوں ہوتی ہے کہ اسے غزل یا نظم کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔

مستزاد

غزل اور رباعی میں مصرعہ کے بعد اس بحر کے ایک یا دو ارکان کا اضافہ کرنا یعنی آخر میں ایک چھوٹا سا مصرعہ بڑھا دینا مستزاد کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ مستزاد عارض اور مستزاد لازم۔ مستزاد عارض میں اضافہ کیے ہوئے زائد مصرعے کے بغیر بھی مصرعہ اپنے پورے معنی ادا کرتا ہے۔ یعنی اس کا مفہوم اضافہ کیے ہوئے چھوٹے مصرعے کے مفہوم پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اپنی جگہ خود بامعنی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف مستزاد لازم میں اضافہ کیے ہوئے چھوٹے مصرعے کا مطلب اصل بڑے مصرعے کے مطلب کا ایک جزو ہوتا ہے۔ بعض وقت اصل بڑے مصرعے کے بعد دو دو تین تین چھوٹے مصرعوں کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔

جیسےظفر کا مستزاد

جو عرش سے ہے فرش تک آدمی میں ہے
دیکھ آنکھ کھول کر کیا کیا نہیں ہے اس میں کہ
سب کچھ اس میں ہے پر چاہیے نظر

واسوخت

یہ فارسی مصدر واسوختن کا حاصل مصدر ہے اور اعراض کرنا یا روگردانی کرنا کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اس سے تنفر اور بیزاری کا اظہار ہوتا ہے مگر یہ ایک صنف ِسخن بھی ہے جس میں محبوب کی کج ادائی، بے وفائی اور لاپروائی سے تنگ آکر شاعر اس کا نہ صرف یہ کہ گلہ کرتا ہے بلکہ محبت ترک کر دینے کی دھمکی بھی دیتا ہے۔ واسوخت کی بنیاد معاملہ بندی پر ہے۔ چونکہ غزل میں اس کا اظہار آزادی سے ممکن نہیں اس لیے شعرا نے واسوخت کی صفت نکالی۔ فارسی میں وحشی یزدی کو صنف کا موجد سمجھا جاتا ہے۔

ریختہ

جو نظم دہلی کی صاف زبان میں کہی جائے۔

ریختی

جو نظم عورتوں کی زبان میں کہی جاوے جیسے۔

ہم کو جو چاہے اس کا خدا نت بھلا کرے
دودوں نہائے اور وہ پوتوں پھلا کرے

شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان۔

بقول خلیل رام پوری

شاعری نے مجھے انسان بنایا ہے خلیل
میں وہ شیشہ تھا کہ دنیا سے چمکتا ہی نہ تھا


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

+ posts

ربیعہ کنول بلاگر‘ مصنف اور پروڈیوسر ہیں‘ جبکہ بطور وائس اوور آرٹسٹ بھی اپنے فرائض انجام دیتی ہیں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں