The news is by your side.

نائب الرسول فی الہند‘ خواجہ معین الدین چشتی

سرزمینِ ہندوستان کی خوش نصیبی ہے کہ اس زمین کواولیاء کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں اولیائے کرام کے شہنشاہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ جیسے جلیل القدر بزرگ کامزارہے۔

خالق کا ئنات رب العالمین نے انسانیت کے محسن اعظم ، ہادی رحمت مجسم رسول اللہﷺ کی امت میں ہردور میں ایسے افرا دمبعوث فرمائے جنہیں اللہ نے اپنے خصوصی انعام واکرام سے نوازا ورا ن سے امت کی ظاہری وباطنی اصلاح کابندوبست فرمایا‘ انہیں برگزیدہ ہستیوں میں سے حضرت خواجہ معین الدین ؒ چشتی کا نام بھی آتاہے۔

آپ کے والد کا اسمِ گرامی غیاث الدین حسن ؒ اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ ام الورع بی بی تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی شادی 590ءہجری 1194کو بی بی امت کے ساتھ ہوئی آپ کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ آپ کے پیر ومرشدحضرت خواجہ شیخ عثمان ہارونی سے آپ کو بہت محبت اور عقیدت تھی۔ اس کی محبت اور عقیدت کودیکھ کرخواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو (امیرتبرک ) کے شرف سے نواز کر آپ کو اپنا سجادہ نشین مقررفرمایا۔

خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے اپنے گفتار اور اپنے کردار سے ایک معیاری زندگی کانمونہ پیش کیا‘ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے صوفیائے کرام نے جس خلوص و محبت سے کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس کا نتیجہ ہے کہ اسلام مختصر مدت میں عالم پر چادر نور بن کر چھا گیا اور ہر ذی شعور نے اس آفاقی دین سے اکتسابِ فیض کیا ۔ حضرت داتا علی ہجویری ؒ کشف المحبوب میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانیوں کو آج تک باقی رکھا ہے اور اپنے اولیاءکو اس کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ توحید الہٰی اور نبوت ﷺ کے آثار ہمیشہ ظاہر رہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاءکرام کو کائنات کا والی بنایا ہے اور وہ دنیا میں ذکر الہٰی اور اس کی دلیل بن گئے ہیں ، انہوں نے نفس کی پیروی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرلی ہے ، عقیدت کی وسعت سمندر سے زیادہ ہوتی ہے ، گہری ہوتی ہے اور جب بات تصوف کی ہو تو عقیدت کی معراج رضا ئے الہٰی سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگ جاتی ہے۔ پاک وہندکے اولیا ئے کرام،صوفیائےعظام ؒ میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو سب سے منفرداوربلند مقام حاصل ہے۔ آپ کو نائب الرسول فی الہندﷺ کے عظیم لقب سے بھی یادکیاجاتاہے۔آپ کی مکمل زندگی نکات طریقت کا دفینہ تھی حقیقت ومعرفت کاآئینہ اور معرفت الہیہ کاسرچشمہ تھی۔

انہوں نے اپنی روحانی طاقت سے اپنا ایثارخلوص اور رواداری سے ایک نئے سماج کی تشکیل کی۔اجمیر راجھستان کی راجھستانی سے 130کلومیٹرکا فاصلے پر نیشنل ہائی آرٹ اورتراولی پہاڑی کے خوبصورت دامن پر واقع ہے۔ بغداد سے واپسی پر خواجہ غریب نواز ؒ 1156ءعیسوی میں حرم شریف پہنچے خواجہ عثمانی ہارونی ؒنے آپ کا ہاتھ پکڑکر دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کی منظوری آئی کہ (ہم نے معین الدین ) کو قبول کیا۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی ؒسے مریدوں کے بارے میں کچھ کے نام تاریخ میں آتے ہیں۔

سب سے پہلے مریداور سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا نام آتاہے۔ باقی مریدو ں کے نام یہ ہیں۔ خواجہ فخر الدین ؒ ، خواجہ محمدیادگارچشتی ؒ، خواجہ علاؤالدین نیلی چشتی ؒ ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغؒ۔خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی ؒ سے منسوب تصانیف، اورعملی نگارشات کو تذکرہ نویسوں سے یوں شمارکیاہے۔ انیس الارواح، حدیث المعارف، کشف الاسرار، گنج الاسرار، رسالہ آداب، سیر العارفین، مسالک الساکین، مرقعہ خواجگان ، اورمراة الاسرارشامل ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے عقیدت مندوں کی زباں پر ایک شعرضرورہوتاہے۔

الٰہی تابود خورشید وماہی
چراغ ِچشتیہ اورروشنائی

اے اللہ تعالیٰ جب تک چاند اور سورج کی روشنی باقی ہے سلسلہ چشتیہ کے چراغ کوروشن رکھ(آمین)۔

عقیدت مندوں کے اس ولی کا ذکر کرتے ہوئے اس عظیم رباعی پر ختم کرنا چاہوں گا جو انہوںشہادت گوہرنایاب امام عالیٰ مقام سیدنا حسین ؓ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا

شاہ است حسین ؓ بادشاہ است حسین
دین است حسین ؓ دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست در د دست یزید
حقا کہ بنائے لا اللہ است حسین


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں