اللہ تعالی ٰ نے ہمارے پیارے ملک پاکستان کو چارموسم عطا کیے ہیں ، بہار ،گرمی، خزاں اور سردی۔ ان کا آنا جانا اور جوبن پر ہونا بھی قدرت ہے ، سال کی ابتدائی سہ ماہی میں موسم خوش گوار ہوتا ہے ، درختوں میں پھول ، پتوں کی نئی کونپلیں نکلتی ہیں ۔۔ کلیاں کھل کر پھول بن جاتی ہیں، ہر طرف خوبصورت رنگ بکھر جاتے ہیں ،، اگلے تین ماہ میں یہ درخت سایہ فراہم کرتے ہیں ،رسیلے پھل اور سبزیاں غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں ، اگست ، ستمبر، اکتوبر تک خزاں آجاتی ہے، پرانے پتے نئے آنے والوں کے لیے جگہ چھوڑ دیتے ہیں ،باغوں میں سناٹا سا ہوجاتا ہے، سورج سروں کو جھلسانے کے بجائے نرم سی گرمی دیتا ہے۔ اور نئے موسم کو خوش آمدید کہنے کی تیاری بھی ،سال کے آخری تین ماہ میں سردی ہوتی ہے ، درختوں ، گھروں پر بارش اور برف پڑتی ہے ، سورج کی تیز دھوپ کے سامنے دھند چھا جاتی ہے ۔
لیکن ان سب موسموں میں جو مشترکہ شے ہے ،جو قدرت کے نظاروں کو حسین بنارہی ہے ۔ وہ ہے پودے ، درخت، بیلیں ،کھیت وغیرہ۔یہ باغ ، پودے ، درخت خود رو تو نہیں ، کسی نے لگائے ، کسی نے حفاظت کی اور کوئی ان کاثمر پارہا ہے ،، درخت زمین پر زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کی غذا بنتے ہیں بلکہ زمین پر آکسیجن کا تناسب بھی بگڑنے نہیں دیتے، اس کے ساتھ اللہ کی یہ مخلوق سیلاب سے تحفظ دینے کا کام بھی کرتی ہے ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ باغوں کو ملیا میٹ کرکے سڑکیں بنارہے ہیں ، پارکوں کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیاگیا ہے ، درختوں کو کاٹ کر فرنیچر ، ماچس اور نجانے کیا کیا بنایا جارہا ہے ۔ کچھ لوگ گزر بسر کرنے کے لیے لکڑی جلاتے بھی ہیں ۔روزمرہ سجاوٹی اشیا میں بھی درختوں کی لکڑی استعمال ہوتی ہے ، مختلف ادویات کے لیے ان کی چھال، پتے، بیج، پھول،پھل اورجڑ غرض سب ہی استعمال ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 400 ارب سے زیادہ درخت سر بلند کیے کھڑے ہیں اور ان کی کم سے کم 23000 مختلف اقسام مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں۔
یعنی صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود درخت زندگی کا استعارہ ہیں ،، جن کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ جائےگی ، درختوں کی عدم موجودگی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب نہیں کی جاسکے گی ، آکسیجن کی پیداوار بھی مناسب نہیں ہوسکےگی ، دھواں ، بدبو اور چٹیل میدانوں سے سب نظام خراب ہوجائے گا۔
تو کیوں نہ زندگی کو مثبت انداز سے گزاریں ، شجرکاری مہم چلائی جائے ، زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ، اور اس کے لیے کل کا یا کسی اور دن کاکیوں انتظار کریں ، کسی تنظیم یا حکومت کی جانب سے کسی اعلان کے کیوں منتظر رہیں ،آگے بڑھیں اپنے حصے کا کم ازکم ایک پودا ضرورلگائیں ۔ تاکہ آنے والے وقتوں میں وہ پودا سایہ دار شجر بن جائے اور آپ خود یادوسرے اس کی ٹھنڈی چھاؤں سے مستفید ہوسکیں ۔آپ کا لگایا ہوادرخت ماحول کو بہتر اور ساز گار بنانے میں کن معاون ہوسکتا ہے ، شاید!اسکا آپ کو اندازہ نہیں ۔۔ بہار کا موسم ابھی باقی ہے ،، اپریل فول تو یقیناً منا ہی چکے ہوں گے آپ ‘ اب خود سے ذرا ہمدردی کرتے ہوئے اپریل کو ’کول‘ بھی بنالیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں