The news is by your side.

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

موتی سمجھ کے شان ِ کریمی نے چن لیا
قطرے جوتھے مرے عرق انفعال کے

اس شعر نے محمد اقبال کے مستقبل کے عظیم شاعر ہونے کادعوی ٰ کالج کے زمانے میں ہی کردیا۔

لاہور کے بازارِ حکیماں کے ایک مشاعرے میں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود افراد پھڑک اٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشن گوئی کی کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہوگا۔شعر و شاعری کےشوق کو فروغ دینے میں آپ (اقبا ل ) کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔

کالج کے زمانے میں محمد اقبال نے بچوں کے لیے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلا مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔ کبھی بچے کی دعا کہہ گئے، جو ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔

علامہ محمد اقبال نے 1899 میں ایم ۔ اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

اقبال آنے والے کل کی بہتری اور کامیابی کیلئے آج محنت کو لازمی قرار دیتے ہیں:

وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں افروز نہیں ہے

یونیورسٹی آف کیمبرج سے لاء کرنے کے لئے اقبال نے 1905 میں ہندوستان چھوڑا لیکن یہ فلسفہ ہی تھا جس نے ان کی سوچ پر غلبہ کر لیا ۔ فلسفہ میں دلچسپی نے انہیں1907 میں ہائیڈ لبرگ اور میونح پہنچایا۔

حکمت ِمشرق ومغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کے غلاموں کے لیے اکسیر
دین ہو، فلسفہ ہو،فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنیادپر تعمیر

اقبال نے ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908 میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر بار میں آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے۔

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیاء تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیّل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

ان اشعار میں علامہ اقبال نے علم و تعلیم اور تحقیق و جستجو کے ذریعے جدید دنیا اور خودی پیدا کرنے کا فارمولا پیش کیا ، اقبال کی خواہش رہی کہ کسی غیر کے افکار و نظریات سے آزاد۔۔ علم و تحقیق سے اپنی دنیا آپ پیدا کی جائے۔سنہ 1922 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا تاہم اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا۔

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردانہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

ڈاکٹر سرعلامہ محمد اقبال کی جاودانی کا ایک اہم راز یہی ہے کہ ان کی شاعری اور نثری افکار میں محدودیت یا تنگ نظری نہیں بلکہ ہر معاملے میں رہنمائی ہے۔شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا ۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہبرو منزل ہی نہیں

علامہ اقبال کو دور جدید کاصوفی سمجھا جاتا ہے۔ وسعت میں آر پار جانے میں یہ اقبال کی اہلیت ہے جو فلسفہ کو سماجی ثقافتی مسائل سے جدا کرتی ہے اور جس نے انہیں ایک فلسفی اور ثقافتی ہیرو بنایا۔

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہوعقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمود میں عشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی

بیسویں صدی کے معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان ، اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ’’ ڈاکٹر سرعلامہ محمد اقبال ‘‘ ہیں ۔۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہٰ آباد کے جلسے میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

سوئی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں​

یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اقبال کا کلام مسلمانانِ عالم بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں، علامہ اقبال انسانی خودی کے قائل تھے ۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتانہ بن اپنا تو بن

حکیم الامت علامہ اقبال نے جو تصورات پیش کئے ، ا ن میں خودی، شاہین ، مرد مومن اور ملت شامل ہیں ۔۔ علامہ اقبال ایک ایسے انسان تھے جو با ہمت ، عالی فکر، اور نفس کا عرفان رکھنے والا مر د مومن تھے :

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بند ے سے خود پوچھے بتا تیری رضاءکیا ہے ؟

خودی تصور انسان کو اپنے اندر بے پناہ تعمیراتی صلاحیتوں کا ادراک دیتی ہے اور جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتاہے تو وہ اپنے رب کو بھی پہچان لیتا ہے ۔

علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چے چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ارمغان حجاز کے نام شامل ہیں۔21اپریل1938 کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال خالقِ حقیقی سے جا ملے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں