عبدالرحمن قدیر
ٹائم سٹریم (وقت کی لڑی) فی الحال کہنے کو تو ایک افسانوی تھیوری ہے۔ یہ لمحوں کی ایک لڑی ہے جو زندگی بناتی ہے۔ بہت سی ہالی ووڈ فلمیں جو ٹائم ٹریول یا نظریۂ اضافیت جسے ریلیٹیوٹی تھیوری بھی کہتے ہیں، کے بارے میں بات کرتی ہیں ان میں ٹائم سٹریم کا موجود ہونا لازم قرار پاتا ہے۔ تاہم اس اصطلاح کو بطورِلفظ انتہائی کم استعمال کیا گیا ہے۔
نظریاتی طور پر وقت کے تمام لمحے ایک لڑی کی طرح پرو دیے گئے ہیں۔ جو انسانی علم کے مطابق بگ بینگ سے شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر اس کی شاخیں بنتی گئیں۔ ان میں سے ایک شاخ ہماری کہکشاں ملکی وے کے لیے بنی۔ پھر ملکی وے میں نظامِ شمسی اور پھر زمین اور پھر شخصی لحاظ سے وقت کا یہ دھارا تقسیم در تقسیم ہوتا چلاجاتا ہے۔
وقت کی ندی میں ذرا سی بے ربطی یا جنبش آگے چلنے والی ساری لڑی کا رخ بدل سکتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہم ایک چھوٹی سی مثال ایک کہانی کے طور پر پڑھیں گے:
سمیع ایک لائق مگر غریب لڑکا تھا۔ یونیورسٹی جاتے ہوئے ایک دن ایک رستے میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگ کر گر گیا۔ اس کے گھٹنے پر چوٹ آئی۔ وہیں پاس موجود میڈیکل کی ایک طالبہ نے اسے دیکھا اور اسی وقت اسے پٹی کر دی۔ اسی طرح اسے محبت ہوگئی مگر غربت کی وجہ سے اس لڑکی نے اسکو ریجکٹ کر دیا۔ اس نے اسی ریجکشن کو مثبت توانائی میں تبدیل کیا اور انجینئرنگ میں کامیابی حاصل کر کے پوری دنیا میں شہرت حاصل کی۔ اور کئی مشینیں بنانے میں کامیاب رہا۔
اسی طرح یہ تمام واقعات اینٹوں کی طرح اسکی زندگی کی عمارت کھڑی کرتے رہے۔ مگر اس لڑکی کی یاد اسے ابھی بھی ستاتی تھی۔ پھر ایک دن اس نے ایک ٹائم مشین بنا کر ماضی میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ماضی میں جا کر بہت محنت کر کے اس نے اس لڑکی کو بالآخر راضی کر لیا اور پھر جب موجودہ وقت میں واپس آیا تو ایک بالکل نئی زندگی اس کی منتظر تھی۔ کیوں کہ اس لڑکی کے قبول کرنے کے ساتھ ہی زندگی ایک دوسری راہ پر چل چکی تھی۔
چونکہ اس لڑکی نے اسے محبت دے دی اوروہ اسی بات پر مطمئن ہو گیا کہ اسے مزید کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ وہ یونیورسٹی بھی چھوڑ چکا تھا اور ایک چھوٹے سے مکان میں ایک انجینئر کی بجائے ایک الیکٹریشن کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی ساری محنت ضائع ہو چکی تھی۔ افسوس تو ہوا مگر اس کے بارے میں اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا کیوں کی وقت کی ندی کے نئے رخ میں وہ نہ انجنیئر بنا اور نہ ہی پھر ٹائم مشین بنا سکتا تھا کہ ماضی میں جا کر دوبارہ اس چیز کو درست کر سکے۔
اگر وہ پیچھے جا کر اس پتھر کو ہی ہٹا دیتا جس سے ٹکرانے کی وجہ سے چوٹ لگی تو وہ لڑکی اسے ملی ہی نا ہوتی اور ا س کی زندگی کا ایک تیسرا موڑ بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
وقت کے اس بے مثال دھارے میں چار طرح کے عناصر ہوتے ہیں۔
معروف اور بااثر
معروف اور بے اثر
مجہول اور بااثر
مجہول اور بے اثر
معروف اور بااثر عناصر وہ ہیں جو زمانے میں معروف بھی ہیں اور وقت کی ندی میں اہم تاثر چھوڑ کر گئے ہیں۔ جیسے کہ قائداعظم۔ اگر وہ نہ ہوتے تو پاکستان نہ بن پاتا۔ اگر وقت کی ندی میں انہیں نکال دیا جائے تو پاکستان موجود ہی نہ ہوگا۔
معروف اور بے اثر عناصر وہ ہیں جنہیں زمانہ تو جانتا ہے۔ لیکن انہیں وقت کی ندی سے نکال بھی دیا جائے تو وقت متاثر نہ ہوگا۔ جیسا کہ عمران خان کی سیاست۔ اگر عمران خان کو وقت کی ندی میں سیاست دان کی بجائے ایک کرکٹر ہی رہنے دیا جائے تو تب بھی پاکستانی سیاست ویسی ہی ہوگی جیسے ہے۔ کیونکہ نواز شریف کو نااہل کرانے کے لیے بھی سراج الحق، آصف علی زرداری اور دوسرے عناصر موجود ہو سکتے ہیں۔
مجہول اور بااثر عناصر میں نامعلوم شاعر جس نے ’بیووولف‘ لکھی ہو سکتا ہے۔ شاید اگر اس نامعلوم فرد نے یہ نظم نہ لکھی ہوتی تو انگریزی شاعری اور اسی طرح ان کی میوزک انڈسٹرے بھی اتنی کامیاب نا ہوتی۔ آخر شاعری ہی موسیقی کی ماں ہے۔
مجہول اور بے اثر عناصر وہ ہیں جنہیں زمانہ بھول چکا ہے یا جانتا ہی نہیں۔ اور وقت کی لہروں پر انکا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آپ کافی مثالیں اس کی سوچ سکتے ہیں۔
زمانہ اور آپکی زندگی میں جو بھی حادثات یا واقعات پیش آئے، چاہے اچھے ہیں یا برے، انہوں نے ہی آپکی زندگی اور آپکے موجودہ کردار کو بنایا ہے۔ اگر آپ اپنے ماضی کا ایک واقعہ بھی نکال دیں تو آپ کی زندگی کی لڑی ایک مختلف ڈگر پر چل سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو ناگوار گزرے۔ اس لیے کائنات بنانے والے نے آپکی زندگی میں انہی واقعات کو شامل کیا ہے جو کہ آپ کی زندگی کو پرفیکٹ بنا سکیں۔ اس لیے جو بھی ہوا اس پر شکر ادا کیجیے۔ آپ جو ہیں اس پر فخر کیجیے۔ ناشکری فقط آپ کو دکھ ہی دے سکے گی، کوئی فائدہ نہیں۔