قارئین گرامی کیا کیا سنیں گے، کیا کیا سناؤں۔۔۔ چند سیاست دانوں کے قول و فعل کے تضاد کا ترازو اب ٹوٹنے والا ہے، جس طرح انصاف کا بول بالا آج کل عدالتیں کررہی ہیں اور عوامی بنیادی سہولتوں کا تذکرہ جس طرح عوام خود کررہی ہے، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔
کچھ سیاسی مہرے احتسابی عمل کی سیڑھیاں اتر رہے ہیں اور دکھی ہیں، جو چڑھ رہے ہیں، وہ خوفزدہ ہیں۔ اس لتھڑے ہوئے کرپشن میں ملوث لوگ عوام سے کہتے ہیں کہ ہم سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے مگر جب سے عدالتوں نے کمرکس کر انصاف کا بول بالا کیا ہے، دارالحکومت کے اندر اور باہر سے خوف طاری ہے اور جو حرمت ِقلم کے متوالے ہیں، انہوں نے بھی اپنے ناتواں کندھوں سے خوف کی چادر اتار پھینکی ہے۔ ادھر سیاست دان بے مقصد تصادم کے شادیانے بجارہے ہیں اور اقتدار کی دوڑ ہے کہ ہاتھ سے نہ نکل جائے، روز جلسے ہوتے ہیں، تمام پارٹیوں کے لیڈر کبھی بھی اپنی تقاریر میں یہ نہیں کہتے کہ (عمران کے علاوہ) ماضی میں اقتدار ہونے کے باوجود قوم کو لالی پاپ دیا گیا بلکہ یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ ہمیں تو یہ انعامات ورثے میں ملے ہیں۔
آج جتنی پارٹیاں جلسے جلوس کررہی ہیں، یہ سب اقتدار میں رہ چکے ہیں مگر چونکہ ماضی کے اقتدار ان کے لئے تھے، اب سارے عوام کے لئے اقتدار کی بھاگ دوڑ کررہے ہیں اور عوام اسی میں خوش ہے، جبھی تو غیر تعلیم یافتہ لوگ تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں، اقتدار کے مزے سب نے لوٹے کچھ لوگ پتنگیں لوٹتے رہے، کچھ نے تیر برسائے، باقی جو بچے تھے وہ شیر سے ڈراتے رہے مگر اب جو انصاف کا ترازو آیا ہے یہ عوامی مقبولیت میں نمبر ون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے جبکہ سیاست دان بیانات دے کر وقت کا ضیاع کررہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ جس وزیر کا اس کی وزارت سے تعلق نہیں وہ بھی چڈی پہن کر کبڈی کبڈی کھیل رہا ہے اور تعلیم یافتہ شخص اس افراتفری کو انجوائے کررہا ہے اور جو بے چارے گاؤں، دیہاتوں میں رہنے والے غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں، وہ ان سیاست دانوں کو دیانت اور تندہی سے سن رہے ہیں اور انہی معصوم لوگوں کو یہ چند سیاست دان کہتے ہیں کہ لاکھوں کا مجمع تھا اور اپنی شر انگیزیوں پر یہ اور ان کے حواری اپنی فتح کا جشن مناتے ہیں۔
سیاسی فرقہ واریت کی وجہ سے ان چند سیاست دانوں کی قدر و منزلت کھائی میں گر کر پارہ پارہ ہورہی ہے، انہیں مٹھی بھر پڑھے لکھے لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ انتخابات پر گھروں سے ہی نہیں نکلتے لہٰذا یہ مٹھی بھر ہیں اور انہیں مٹھی سے ہی مسل دو اور ان کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں سے گاؤں دیہاتوں کے اسکول قبرستانوں کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
اب چلتے ہیں کچھ کارناموں کی طرف۔۔۔ گزشتہ دنوں ن لیگ کے وفاقی وزیر فرمارہے تھے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک غلطی اور کی کہ اسلام آباد ائر پورٹ کا افتتاح کردیا۔ بقول ان کے کہ اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو اس کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئے ائر پورٹ پر عوامی سہولتوں کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ مسافر ریلوے کے قلی نظر آتے رہے کہ ایئر پورٹ پر ٹرالیاں ہی نہیں تھیں اور مسافر ٹرالیوں کے لئے دھکے کھاتے پھررہے تھے جبکہ یہ ائر پورٹ ن لیگ کی مہارت نہیں ہے یہ تو پرویز مشرف اور سابق صدر کے زمانے سے زیرِ تعمیر تھا جبکہ تختی وزیراعظم کے نام ہوگئی۔
برسرِ اقتدار لوگ اپوزیشن کو کردار ادا کرنے کی بالکل اجازت نہیں دے رہے۔ اپوزیشن بھی پریشان ہے کہ الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں، اب گھونسلے سے نکلنا ہوگا اور اب تو اپوزیشن بھی پرواز کی شکل اختیار کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی پیٹرول کی قیمتوں میں اعتراض کررہی ہے کہ اس سے عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی جبکہ2013ءمیں پیٹرول 106.60 روپے لیٹر تھا اور آج88 روپے ہے تو پھر بھی اعتراض ہے، ادھر اسلام آباد ایئر پورٹ میں50 ارب روپے کی کرپشن پر نیب ابتدائی تحقیقات کرے گا۔ بھلا بتائیے3 برس پرانا پراجیکٹ ہے، پرویز مشرف باہر ہیں، نواز شریف نا اہل ہوگئے ہیں، سابق صدر زرداری موجود ہیں۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کرپشن کا اصل ہیرو کون ہے؟۔
آج کا کالم ان چند سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات کے حوالے سے لکھا ہے، جو یقیناً قارئین کے دل کی آواز ہے۔ ادھر دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز فرما رہی ہیں کہ بزدل مشرف کو واپس آنا ہوتا تو بھاگتے کیوں۔۔۔ ارے بی بی، جیسے ابا گئے تھے ان کے دور میں پھر وہ واپس آگئے اور اقتدار میں بھی آگئے اور مشرف واپس چلے گئے، یہ آنا جانا تو لگا رہتا ہے، جس دن ان کو سگنل مل گیا وہ چلے آئیں گے۔ یہ قوم ان سیاست دانوں کی بے سُری باتوں سے اب تنگ آگئی ہے، سب نے اقتدار کے مزے لوٹے اور ماضی میں جو کسی کے ساتھ ہوا وہ بھول جاتے ہیں۔ انہیں صرف حال کی باتیں یاد رہتی ہے۔
چکدرہ میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، اگر کسی نے ترقی دیکھنی ہے تو چلو میرے ساتھ سندھ دیکھو کیسے تعلیم اور صحت دی جاتی ہے۔۔۔ قارئین اگر آپ ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر انہیں راقم خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، پاکستانی پوری دنیا میں نام روشن کررہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صاحبِ حیثیت ہیں، غریب توڑ پھوڑ، رنگ سفیدی، مستری، پلمبر کا کام کرتا ہے اور ان کے حقوق کی یہاں کے اعلیٰ افسران کو کوئی پرواہ نہیں کہ غیر ممالک میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، ہاں یہ موج دریا والے لوگ دنیا میں پاکستان کو بدنام کرتے ہیں پھر اخبارات میں آتا ہے، جسے پڑھ کر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
اندازہ کیجئے ان امارات سے لتھڑے ہوئے لوگ پاکستان میں تو بہت آسانی یہ کہہ کر جان چھڑوالیتے ہیں کہ یہ سیاسی انتقام ہے اور یوں خبر راکھ کے ڈھیر کی نذر ہوجاتی ہے، جیسے شکرقندی کو راکھ میں رکھا جاتا ہے، جب پک جاتی ہے تو نکال لیا جاتا ہے، یعنی کے جو سیاسی انتقام کا شکار ہوتے ہیں، جب ان کی پارٹی کو اقتدار ملتا ہے تو یہ باوضو ہو کر پھر شان وشوکت سے نکل آتے ہیں مگر یہ دھاندلی پاکستان میں تو کرسکتے ہیں، غیر ممالک میں سیاسی انتقام کا نعرہ مردے کی حیثیت رکھتا ہے کہ آگے بولنے کی گنجائش نہیں۔
کینیڈا میں سابق رکن کینیڈین واجد خان (پاکستانی) کو فراڈ کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے، اب یہ کہنا بیکار ہے کہ پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہوں گے، اس قوم کے سر تو جھکے رہتے ہیں۔ کرپشن لوٹ مار، دادا گیری سب کچھ یہاں ہوتا ہے، تو سر اٹھا کر چلنا محال نظر آتا ہے یعنی یہ صاحبِ حیثیت لوگ ضابطہ اخلاق کو تو لطیفہ سمجھتے ہیں۔
ہم تو عادی ہیں کرپشن اور لوٹ مار کی خبریں پڑھنے اور سننے کے مگر جب کوئی غیر ممالک میں پاکستانی ہونے کے ناطے کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے تو دنیا کے بڑے اخبارات اسے نمایاں طور پر چھاپتے ہیں۔ اصل شرمندگی تو اس وقت غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو ہوتی ہے، ہماری تو خیر ہے کہ صوبوں میں ترقیاتی کام دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ ہمارے سیاست دان کتنے ایماندار ہیں۔ جن صوبوں میں پانی، بجلی نہ ہو کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہوں، وہاں جب کوئی وزیراعلیٰ کسی سیمینار سے خطاب کرتا ہے تو مقررین کی جو ٹیبل ہوتی ہے وہ پھولوں سے سجی ہوتی ہے۔
اب کوئی یہ بتائے کہ ان پھولوں سے سجی ٹیبل کی افادیت کیا ہے جبکہ قوم کے لئے گندگی کے ڈھیر آپ کو ہر گلی میں ملیں گے، سالانہ لاکھوں روپے چھوٹے چھوٹے تنازعات نمٹانے کے لئے ایسی فضول خرچیاں کی جاتی ہیں۔ اخبارات کی تصاویر اس بات کی گواہ ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ قوم کے مسائل شرم اور تضحیک کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں اور یہ سیاست دان پھولوں سے سجے ہال میں خطاب کرنے کے بعد اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں، انتظامیہ سوچکی، ظاہر ہے جب ان بے چاروں کے پاس کام اتنا ہوتا ہے۔
راقم فرانس کے شہر پیرس کے ایک اسٹور میں گیا تو ایک خوب صورت بینر نے میرا استقبال کیا کہ مسلمانوں کے لئے 40 پرسنٹ ڈسکاؤنٹ ہے، سر شرم سے بلند ہوگیا، جھکا نہیں کہ پاکستان میں تو ہر وقت شرمندگی سے جھکا رہتا ہے۔ یہاں رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا ہے، ہر شے پر50 سے 60 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔۔۔ گوشت، پرچون کی دکان غرض سب لنگوٹ باندھ کر میدان میں اترگئے ہیں۔
بھلا بتلائیے فارمی زندہ مرغی300 روپے کلو بک رہی ہے، کہاں ہیں ہمارے کرتا دھرتا جو تنخوائیں اور پروٹوکول کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔ کھجوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کھجوریں آسمان میں لگ رہی ہیں، جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے توڑا جارہا ہے پھر زمین پر لاکر انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔
ذاتی مفادات کے حصول کی ہوس نے ان بے لگام لوگوں کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں، کراچی میں ٹریفک کی بدترین صورت حال ہے، اس کے بعد اگر اپوزیشن لیڈر یہ فرمادیں کہ اگر کسی نے ترقی دیکھنی ہے تو چلو میرے ساتھ سندھ دیکھو، بس اس بیان کے بعد برجستہ صوبہ سندھ کے رہنے والوں نے استاد قمر جلالوی کا یہ شعر نیک سیاست دانوں کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے پڑھا کہ ۔۔۔
مقدر میں جو سختی تھی وہ مرکر بھی نہیں نکلی
لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمیں نکلی