The news is by your side.

عوامی مسائل اور میئر کراچی وسیم اختر کی بے بسی

اس روز وہ خاصے مختلف اور بدلے ہوئے نظرآئے ۔ تندوتیز سوالات پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے والے اور نرم گفتار ۔کسی بلاگر کے سوال اور بلدیاتی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کوتاہی کی نشاندہی پر ان کے ماتھے پر بل نہ آیا اورکسی بھی موقع پر لہجے میں نہ تو روایتی سختی تھی اور نہ ہی وہ اکھڑے بگڑے دکھائی دیئے۔ اپنا نقطۂ نظرنرم لہجے میں بیان کیا اور قائل کرنے کی کوشش کی۔ جہاں بات نہ بنی وہاں خاموشی اختیار کی اور بعض کوتاہیوں کا اعتراف بھی کیا۔

وسیم اختر کو دیکھ کر یوں لگا کہ جیل یاتر اوراپنی جماعت کے انتشاراور بحران پر جہاں وہ ایک قسم کے کرب میں مبتلا ہیں جوکہ فطری ہے وہیں اب ایک سینئر سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنی بھاری ذمہ داری کا احساس بھی کررہے ہیں اور اس کا امیج بہتر بنانے کے لئے فکر مند ہیں۔ سیاسی پارٹی سے وابستگی کے علاوہ وہ شہر کراچی کے میئر بھی ہیں اوریہ عہدہ ان سے مزید بردباری اورتحمل کا تقاضہ بھی کر رہا ہے اور انھوں نے بلاگرز کے ساتھ نشست میں اس کا مظاہرہ بھی کیا۔ تنظیمی سطح پر مسلسل مشکلات کے بعدبانی تحریک سے علیحدگی اور دھڑے بندی کی شکار جماعت کے اس رہنما کو کراچی کے ’’بے اختیار‘‘ میئر ہونے کی وجہ سے خاص طور پر ایم کیو ایم کے زیر اثر علاقوں کے عوام کے غم و غصے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں مخالفین کی جانب سے منفی پروپیگنڈہ اور کراچی میں اجارہ داری قائم کرنے کے لئے مسلسل سیاسی سرگرمیوں نے بھی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

اس نشست کا مقصد شہر اور شہریوں کے لئے میئر کی اب تک کی کارکردگی پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے تعمیری انداز میں تنقید کرنا اورمشورہ کرنا تھا۔ دوسری طرف میئر کی جانب سے ان مسائل اور رکاوٹوں کے ساتھ بعض ایسی پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا جس کی ذمہ دار ان کے مطابق سندھ حکومت ہے۔ اسی طرح شہریوں کی توقعات اور ان امور پر بھی وسیم اختر نے کھل کر بات کی جودراصل ان کے دائرہ اختیار میں نہیں مگر لوگ کم علمی اور منفی پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر انھیں بھی میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے بلدیاتی نمائندوں کی کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ہے جو میئر کے اختیارات میں شامل نہیں رہا۔ ادھر ہر گلی محلے کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی عدم فراہمی اور نالوں اور سیوریج لائنوں کی خرابی کی وجہ سے نکاس کا پانی سڑکوں پر بہنا یابعض علاقوں میں مکمل طور پر ناکارہ سیوریج سسٹم ہے جس کے نتیجے میں ہر طرف گندا پانی مکینوں کے لئے تکلیف کا سبب بن رہا ہے ۔

وسیم اخترایم کیو ایم کے ساتھ غالباً چالیس سال سے وابستہ ہیں۔ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں اور آپریشن اور سیاسی انتقام کے لئے کی جانے والی کارروائیاں تو خیران جیسے دیرینہ سیاسی ورکر کے لئے نئی بات نہیں اور نہ ہی وہ ان سے گھبرانے والے ہیں ، ورنہ کب کا یہ میدان چھوڑ چکے ہوتے۔ مگر میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اس بات پر ضرور پریشان اور رنجیدہ ہیں کہ بحیثیت میئر وہ اپنے شہر کے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہے اور ان کے مسائل حل کرنے میں رکاوٹوں نے انھیں مایوس کر دیا ہے۔

اس روز باتیں تو بہت سی ہوئیں۔ کئی مسائل اور میئر اور اس کی ٹیم کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر ہوا، مگر صرف پینے کے پانی اور نکاسی آب ہی کی بات کریں تو صفحے کے صفحے بھر جائیں۔ بجلی کی فراہمی اور کے الیکٹرک کی من مانی، صفائی ستھرائی کے انتظامات، اسٹریٹ لائٹس،کے فور جیسے اہم ترین منصوبے اور اس حوالے سے میئر کی کوششوں کے علاوہ صحت کے مراکز کی ابتر حالت سمیت تجاوزات جیسے مسائل پر ایک بیٹھک تو یوں بھی ناکافی ہی ثابت ہوتی۔ تاہم چند بنیادی باتیں اختصار کے ساتھ قارئین تک پہنچانا ضروری ہیں جن میں ایم کیو ایم کے وہ سپورٹر اور ووٹر بھی شامل ہیں جو اب اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔

کراچی کے موجودہ سیاسی حالات میں ایم کیو ایم کے اندر گروپ بندی نے جہاں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کوانتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم کر دیا ہے وہیں اس کی روایتی حریف اور سندھ کے دیہی علاقوں کی نمائندہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پہلی بار کراچی میں مکمل طور پر انتخابی فتح حاصل کرنے کے لئے جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔پی پی پی کی خواہش ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کی مشکلات کا فائدہ اٹھائے اور اپنی سیاسی اجارہ داری قائم کرسکے۔ اس کے لئے دو راستے تھے۔ ایک طرف تو پی پی پی کراچی آپریشن کی شروعات کے ساتھ ہی مشکلات سے دوچار ایم کیو ایم کے ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے شہر بھر میں بلاتفریق ترقیاتی کام کرواتی اورشہری اور دیہی کی تفریق ختم کرتے ہوئے بعض غیرمنصفانہ اوردوریاں پیدا کرنے والے قوانین یا انتظامی امور کی خامیوں کو دور کرتی اور پھر خود کو عوامی پارٹی ثابت کرنے کے لئے اسمبلی کے فلور سے ایسے بل منظور کرواتی جس سے کراچی کے شہریوں کو ان کا جائز حق اور مقام حاصل ہوتا اور ان کا احساس محرومی یکسر ختم ہو جاتا۔مگر یہ نہیں ہوا۔

ادھرپیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں ٹال مٹول سے کام لیا اور جب عدالت کے حکم پر یہ انتخابات عمل میں لائے گئے تو اس کے بعد نمائندوں کواختیارات سے محروم کردیا گیا۔ بعض محکمے جو دراصل میئر کے اختیار میں ہونے چاہئے تھے، سندھ حکومت کو سونپ دیئے گئے۔ اسی طرح بلدیاتی نمائندوں کو شہری سطح پر سہولتوں کی فراہمی میں حکومت کی جانب سے عدم تعاون کی شکایت ہے جو کہ غلط نہیں۔

اس گفتگو میں وسیم اختر نے عوام کے حق میں عدالت میں دائر کردہ کیسز کا ذکر بھی کیا۔ تاہم حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں ٹال مٹول اور تاخیری حربے استعمال کئے جانے پر دکھ کا اظہار کیا۔ میئر نے بتایاکہ ان کی پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے صحت کے مراکز میں سہولیات کے حوالے سے بات ہوئی جس پر ابتدائی طور پر جائزہ ٹیم بھی کراچی آئی تھی اور یہ کام جلد مکمل ہو گا۔ اسی طرح کچرے اور دیگر امور میں بھی وسیم اختر نے اپنے وسائل اور ادارے کی آمدنی کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کو سندھ حکومت اختیارات نہیں دے رہی اور عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ میئر اور اس کی ٹیم نااہل ہے یا وہ کراچی کے لوگوں کے لئے کام نہیں کررہی۔

وسیم اختر کا کہنا تھاکہ لوگ پانی اور سیوریج کے معاملات میں بلدیاتی نمائندوں سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اورکام نہ ہونے کی صورت میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوتاہی کی اور نمائندے ہونے کا حق ادا نہیں کیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے کہاکہ عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ہم اپنے مالی وسائل کواپنی ذمہ داری نہ ہوتے ہوئے بھی سیوریج پر خرچ کر رہے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ نکاسیٔ آب کا نظام متاثر نہ ہو۔ یہ درست ہے کہ عوام سندھ حکومت اور بلدیاتی میئر کے اختیارات اور کاموں میں تمیز نہیں کر پاتے اور گلی محلوں کی سطح پر ہونے والے ہر مسئلے یا کام کو بلدیاتی نمائندوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرے اور خصوصاً سوشل میڈیا کے دور میں بلاگرز اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں تو ایم کیو ایم پاکستان کی مخالف جماعتیں انہی شہری مسائل پر عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہر جائز طریقہ اپنانے کے علاوہ پروپیگنڈہ بھی کررہی ہیں جسے ایم کیو ایم مسترد کرتی آرہی ہے۔

اسی طرح پی پی پی شہریوں کو بلدیاتی مسائل میں الجھا کر ایم کیو ایم کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے جس کا حل ہمارے پاس تو نہیں۔ یہ تو وسیم اختر اور ان کی جماعت کی قیادت کو سوچنا ہے کہ انھیں ان حالات سے کیسے نمٹنا ہے اور اس پروپیگنڈے کاجواب دینے کے لئے کس پلیٹ فارم پر اپنی توانائی صرف کرنا ہے۔ ہاں، ہم ان کا موقف اورمشکلات ضرور ان کے ووٹروں تک پہنچا سکتے ہیں۔

امید ہے کہ وسیم اخترا اور انکی ٹیم خود ایسے منفی پروپیگنڈے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے عوام سے ڈور ٹو ڈور رابطہ کریگی اورسوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس شہر کے باسیوں کوان کے مسائل اور مشکلات کے اصل ذمہ داروں سے آگاہ کریگی۔


گر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں