The news is by your side.

صوبائی حکومتوں کی کار کردگی اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ

عبوری حکومت کے قیام کا وقت آچکا ہے اوراب ہم اور آپ بجا طور پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے طرزِ حکومت اور مائنڈ سٹم سے میری کوئی ہم آہنگی نہیں مگر ا ن کی اور پرویز خٹک کی کارکردگی کا کوئی موازنہ بھی نہیں ہے۔ میاں صاحب نے تمام رکاوٹوں کے باوجود اورنج لائن سمیت اپنے تمام منصوبے مقررہ مدت کے اندر مکمل کیے اور عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت وہ منصوبہ (میٹرو) بھی مکمل نہیں کر پائی جس کا آئیڈیا اس نے پنجاب حکومت سے نقل کیا تھا۔

تیسری طرف سندھ حکومت کے سید مراد علی شاہ ہیں جنھیں سید قائم علی شاہ کے ہٹائے جانے کے بعد حکومت کے آخری سال میں وزیر اعلیٰ بنایا گیا، ان کی کارکردگی بھی اپنی مدت کے اعتبار سے مثالی رہی۔ بزرگ سیاستدان سید قائم علی شاہ کے ہی بیشتر منصوبے انھوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور ساتھ میں عمر کا فرق واضع کرتے ہوئے انھوں نے کام کی رفتار میں ڈبل سپیڈ دکھائی۔ انھیں کام کا جتنا وقت ملا، انھوں نے صبح شام محنت اور بھاگ دوڑ سے اس مدت میں بہترین کارکردگی دکھائی (اس کے باوجود کہ وہ پرویز خٹک اور شہباز شریف کی طرح اپنے فیصلوں میں بہت زیادہ خود مختار بھی نہ تھے)۔ خٹک اور شریف سے نسبتاً ینگ اور یقیناً زیادہ تعلیم یافتہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ باوجود شہری میڈیا کی اگنورنس کے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔ البتہ مجموعی طور پر پانچ برس کی کارکردگی میں خاص طور پر ڈیولپ منٹ میں میاں شہباز شریف کا نمبر پہلا ہی رہے گا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان پر زیادہ گفتگو ممکن نہیں کیونکہ ایک تو وہاں روایتی طور پر کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہی آتے رہے ہیں اور اگر کبھی کوئی ڈاکٹر مالک بلوچ کی طرح کا بندہ آ بھی گیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے کسی کی بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا۔ لہذا ایمانداری کے ساتھ، سکیورٹی کے حالات خراب ہونگے تو ڈس کریڈیٹ ایف سی کا ہوگا اور اگر بہتر ہوں گے تو کریڈیٹ بھی انہی کا ہوگا۔ پانچ سالوں میں سکیورٹی کی صورتحال میں چونکہ کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی تو وہاں کچھ اور بھی قابل ذکر کام نہیں ہو سکا۔ دوسرا ایک اہم نقطہ جو ہمیشہ ہی نظر انداز ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بلوچستان آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا اور رقبے کے اعتبار سے دوسرے صوبوں کا ڈبل ہے۔ یہاں باقی تین صوبوں جیسی نظر آنےوالی ترقی دکھانے کے لیے حکومت کے پاس پاکستان کا نہیں امریکہ کا بجٹ ہونا چاہے جو کہ نہیں ہے بلکہ دیگر صوبوں سے بھی انتہائی کم بجٹ اسی صوبے کا ہوتا ہے۔

بہر حال یہ تو تھا مجھ ناچیز کی نظر میں چاروں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا مختصر سا خلاصہ اور اب آتے ہیں مستقبل کے منظر نامے کی طرف۔ تو جناب ابھی تک جو حالات نظر آ رہے ہیں ان کے مطابق کم از کم مجھے کہیں کسی سپلٹ مینڈیٹ کی اُمیدنہیں۔ صورتحال کافی واضع ہے اور الیکشن کے قریب مزید واضع ہو جائے گی۔ میری رائے غلط ہو سکتی ہے، مگر مجھے لگتا ہے کہ ان حالات میں تمام جماعتیں تخت یا تختہ کی ہی اُمید رکھ سکتی ہیں۔ اگر میاں صاحب کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ مہم کا بیانیہ عوام نے قبول کر لیا تو عین ممکن ہے کہ سب بے پیندے کے لوٹے الٹ جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ معمول سے ہٹ کر کچھ بھی نہ ہو تو ایسی کسی صورت میں تحریک انصاف کی بڑی فتح یقینی ہوگی۔

ایک اور بات یہاں قابلِ ذکر ہے اور یقیناً یہ امر بھی الیکشن کے نتائج میں اہم کردار ادا کرے گا اور وہ یہ ہے کہ میاں صاحبان چونکہ مرکز اور خاص طور پر باسٹھ فیصد کے صوبہ پنجاب پر برسوں حکومت کر چکے ہیں تو یقیناً ایک طبقہ بغیر کسی کارکردگی اور اس کے تقابل کے ان سے عاجز بھی ہوگا اور وہ ہر صورت اچھی یا بری کسی بھی قسم کی تبدیلی کا خواہاں ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں