The news is by your side.

بیمار نظام تعلیم کو بھی جے آئی ٹی کی ضرورت ہے

دو ہزار سولہ سترہ کی انٹرنیشنل رینکنگ کے مطابق پاکستان کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل نہ تھی۔ لیکن اب میٹرک بورڈ کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے مطابق نو کم پورے گیارہ سو نمبر والے بچے نے ٹاپ کیا ہے اور ساڑھے گیارہ سو سے ایک ہزار پچاس کے درمیان نمبر لینے والے طلبہ کی تعداد بھی ہوش رُبا ہے۔

یہ اعلی معیارِ تعلیم ہے یا پھر ظاہر شاہ اور صدام حسین کے وقت کی افغان اور ایراقی  کرنسی؟ اقامہ اور پانامہ کی کرپشن کی زد میں آئی حکومت میں چئیرمین میٹرک بورڈ کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنے نمبر کیسے آ رہے ہیں؟ کسی ایک یا چلیں چند بچوں نے اتنے نمبر حاصل کیے ہوتے تو یقیناً ہم بھی مان لیتے کہ   غیر معمولی ٹیلنٹ بھی ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو ایسا ہے کہ جیسے نمبروں کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ ہمارا معیار تعلیم ہم میں سے کس سے پوشیدہ ہے؟ ’’اوسط درجہ کے نجی سکول زیادہ سے زیادہ داخلوں کی خاطر پوزیشنز حاصل کرنے کے لیے بورڈ کو بھاری رشوتیں دیتے ہیں‘‘ یہ باتیں نہ صرف زبان زدِ عام ہیں بلکہ اب کافی پرانی ہوچکی ہیں۔

نیا صرف یہ ہے کہ اب کی بار ایک بڑے نجی سکول کے میٹرک سٹریم کے طلبہ نے بھی تین پوزیشنیں لی ہیں۔ ایک وقت تھا جب مذکورہ مہنگا اور معروف نجی سکول ان سب باتوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی سننے کو ملتا تھا کہ اس سکول کے بچوں نے کوئی ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ مگر ظاہر ہے کہ جب رسم یہ ہوگی کہ نجی سکولوں سے لے کر اکیڈمیز تک سب نے اپنے بچوں کے حاصل کردہ نمبروں کے بڑے بڑے بینرز داخلوں کے وقت ان کی تصویروں کیساتھ آویزاں کرنے ہوں گے  تو پھر سرمایہ داروں کے سامنے کریانہ والوں (چھوٹے سکولوں) کی کیا اوقات؟۔

افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہماری دانشور اشرافیہ بھی اس پر کم ہی بات کرتی ہے۔ اور ہمارے چوٹی کے تحقیقاتی رپورٹررز بھی اس ننگے  سچ پر کوئی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ سب کو حکومتِ وقت کے کرپشن سکینڈلز میں دلچسپی ہے مگر جہاں سے معاشرے میں پڑھی لکھی بد عنوانی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے  وہاں کسی کو کچھ بے نقاب کرنے کی ضرورت نہیں۔

اکثر دوستوں کو گزشتہ دنوں کی ایک خبر یاد ہوگی کہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل کی چھت پر جاری ایک سالگرہ کی تقریب پر پولیس نے (اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ شعیب علی کے آرڈر پر) چھاپہ مار کر پچاس کے قریب نوجوان لڑکے لڑکیوں کو گرفتار کیا اور ان کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں۔

ابتدائی خبروں کے مطابق یہ ایک ڈانس پارٹی تھی اور سب ڈرنک تھے۔ مگر پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی اس میں ان کے ڈرنک ہونے کا کہیں ذکر نہ تھا۔ اس پر اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کی کافی لے دے ہوئی جو یقیناً درست تھی۔ یعنی کسی بھی صورت میں نوجوان لڑکوں کو پشت کے بل لٹا کر اور لڑکیوں کے چہروں سے بال ہٹا ہٹا کر وڈیوز بنانا باعث شرم تھا۔

شدید ردِعمل پر شروع میں یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ لڑکیاں اور لڑکے پروفیشنلز تھے، مگر اس بات میں بھی کوئی صداقت نہ تھی۔ اردو اور انگریزی ذرائع ابلاغ میں اسے محض ڈانس پارٹی ڈانس پارٹی بتایا گیا۔ مگر یہ ’’ریو‘‘ ڈانس پارٹی تھی۔ اردو صحافت سے تو کوئی شکوہ نہیں کہ اس کی سمجھ اور پہنچ اتنی ہی ہوتی مگر حیرت ہے انگریزی اخباروں نے بھی اسے محض ڈانس پارٹی بیان کیا۔ ریو ڈانس کیا ہوتا ہے، مجھے بھی پہلے اس کا علم نہ تھا۔ اس کی تفصیل مجھے میرے عزیز نے بتائی کہ اس میں لڑکے لڑکیاں ڈرگز لے کر یاپھر چرس، شراب پی کر دیر تک یکسوئی سے ناچتے ہیں۔

اس نے بتایا کہ اسے بھی ایک دوست نے اس پارٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی مگر اُسے یہ سب پسند نہیں۔ خیر میں نے اس کی بتائی ’’ریو‘‘ کی تعریف پر اکتفا نہیں کیا اور گوگل پر ’’ریو‘‘ کے معنی جاننے کی کوشش کی تو یہ سب لکھا ملا۔

Rave: talk incoherently, as if one were delirious or mad
address someone in an angry, uncontrolled way
or write about someone or something with great enthusiasm or speakadmiration
a lively party involving dancing and drinking
a very large party or similar event with dancing to loud, fast electronic music
electronic dance music of the kind played at a rave

ملا جلا کر دیسی لفظوں میں نشے کی حالت میں یکسوئی کے ساتھ مست ڈانس کرنا۔ اور بات اسلام آباد کے لڑکے لڑکیوں کی برتھ ڈے پارٹی تک محدود نہیں۔ یہ ’’ریو‘‘ پارٹیز ملک کے بڑے اور نامور نجی سکولز میں بھی ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان میں کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی سٹوڈنٹ نشے کی حالت میں سکول میں داخل نہ ہو، اور بگڑی ہوئی امرا ءکی اولادوں پر قابو پانے اور کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے فائیو سٹار ہوٹلز کے باونسرز (ہوٹلوں کو پروفیشنل بدمعاش جو غل غپاڑہ کرنے والوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں) کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ یہ سب کرنا ضروری ٹھہرتا ہے؟ خیر جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے سکولز میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو تعجب ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی پر پابندی لگانے والے اس سے بھی کم عمر میں لڑکے لڑکیوں کو سکولز میں ان پارٹیز کی اجازت کیسے دیتے ہیں؟ ایسی حالت میں اکٹھے ڈانس کی اجازت کیسے دیتے ہیں؟ اگر یہ تضاد موجود ہے تو یقیناً یہ فکری دیوالیہ پن ہی کہلائے گا۔

ان ریو پارٹیز کے علاوہ ملک کے تقریباً تمام نامور اور مہنگے نجی سکولوں میں آج کل میوزک کنسرٹس کا رواج عام ہے۔ گزشتہ دنوں ایک معروف نجی سکول نے عاطف اسلم کو اپنی تقریب میں محض تین گانوں کے ستائیس لاکھ روپے ادا کیے۔ ایک پروفیشنل کو اتنے پیسے دینے والے یہ سکول ملک و قوم اور خاص طور پر تعلیم کی کیا خدمت کر رہے ہیں؟ انھوں نے خود کتنے بڑے نام پیدا کیے؟ جتنے پیسے یہ ان فالتو تقریبات پر خرچ کرتے ہیں اتنے اگر یہ کھیلوں پر خرچ کریں تو یہاں سے بھی راجر فیڈرر، رافیل نڈال اور سٹیفی گراف جیسا ٹیلنٹ برآمد ہو۔

مگر سپورٹس شاید ان کی تماشہ ٹائپ ذہنی کنگال انتظامیہ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سکول اگر ٹیبل ٹینس کا نیا ٹیبل خرید لے تو اسے طلبہ سے محض اس لیے دور رکھا جاتا ہے کہ یہ بہت جلد خراب کر دیں گے۔ ان میں پڑھنے والے ساتویں آٹھویں کے بچے چرس، شراب اور ایکس ٹی سی جیسی ڈرگز سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ان معروف سکولز کی چین میں پڑھنے والے ہمارے لاہور کے بچے تو سب سے ترقی یافتہ ہیں کہ انھیں  پیشہ ور خواتین کا بھی ساتویں آٹھویں کلاس میں پتہ چل جاتا ہے۔

ایک طرف ہمارا تباہ حال نظام تعلیم اور میٹرک بورڈ ہے جس سے سرکاری اور نجی تمام سکولز منسلک ہیں اور دوسری طرف یہ او اور اے لیولز سکولز کی داستان ہے۔ ایک طرف کو ایجوکیشن پر ہی پابندی ہے اور دوسری طرف مکس ریو پارٹیز اور میوزک کانسرٹس۔ ایک طرف اگر لڑکا لڑکی اکٹھے بیٹھے بات کرتے پکڑے جائیں تو عذاب آ جاتا ہے اور دوسری طرف اکٹھے ناچنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ میں ذاتی طورپر نہ ڈانس کے خلاف ہوں ‘نہ میوزک کنسرٹس کے اور نہ ہی کو ایجوکیشن کے، آپ سکولوں میں میوزک کے مقابلے کروائیں، کھیلوں کے مقابلے کروائیں، بچے بچیاں اکٹھے بیٹھ کر انجوائے کریں، اپنی اپنی ٹیمز کو سپورٹ کریں، مگر پوری سنجیدگی سے سمجھتا ہوں کہ سکولز میں پروفیشنلز کے میوزک کنسرٹس پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔

بہر حال چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ میٹرک بورڈ کے حالیہ نتائج اور نجی سکولوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر ازخود نوٹس لے کر ایک جے آئی ٹی اس ایشو پر بھی تشکیل دیں کہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے، جو میری ناقص رائے میں پانامہ لیکس سے بھی زیادہ اہم ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں