The news is by your side.

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

اک پل میں زندگی بھرکی اداسی دے گیا

لاہور میں اب سے کئی سال قبل شاعر مشرق کے نام پرآباد اقبال ٹاؤن میں ایک شاعر کو ماردیاگیا تھا۔ سردیوں کی اک شام میں وہ زندگی میں اداسیاں بھر گیا۔وہ جومحبتوں کا درس ،زندگی کا پیغام دیتاتھا۔اسے نفرتوں کےبھینٹ چڑھا دیاگیا،اسے ہمیشہ کی نیند سُلا دیاگیا۔16 جنوری کی صبح سیاہ حاشیے کے ساتھ شہ سرخی لگی کہ نامور شاعرمحسن نقوی بھرے بازار میں قتل کردیاگیا۔

وفا کی کون سی منزل پر اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے

محسن نقوی کو مارنے والے یہ بات بھول گئے کہ اہل قلم اپنے الفاظ اور سوچ کے سہارے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!!!!

ڈیرہ غازی خان میں 5 مئی کودنیا میں پہلی سانس لینے والے محسن نقوی کو والدین نے نام تو غلام عباس دیا۔لیکن آٹھویں جماعت میں شاعری کی ابتداکرتے ہی غلام عباس نے محسن نقوی کو اپناقلمی نام بنایا۔

ہمارے شہر میں لوگو! محبت روز بکتی ہے

سنہ 1970 میں جب ایم اے کیا تو سیاسی گہماگہمی عروج پر تھی۔ملک جمہور ی سفر کاآغازکرنے والا تھا۔ ایسے ماحول میں ’بندِقبا ‘ کے نام سےمحسن کاشعری مجموعہ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ برگ صحرا، ریزہ حرف،موج ادراک، عذاب دید، طلوع اشک ، خیمہ جاں اور فرات فکربھی شعری مجموعوں میں شامل ہیں ۔

ردائے خواب کے دیباچے میں انہوں نے اپنی شاعری کامرکز ی نکتہ محبت اور امن کوقرار دیا۔

نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں

یہ دشتِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر
لَبُو ں کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے
یہ دِل تو کب کا سو چُکا ” ردائے خواب” اوڑھ کر

ردائے خواب ایک مسافر کی ” خُود کلامی ” ہے ، جو دِن بھر خواب بُنتا ہے ، خواہشوں کے ریزے چُنتا اور پلکوں پر سجا کر اپنی ذات کے صحرا میں خیالوں کا خیمہ نصب کر کے سو جاتا ہے ۔

محسن تم بدنام بہت ہو!
جیسے ہو، پھربھی اچھے ہو

ان کا اسلوب منفرد، لہجہ توانا، کلام پر اثراور آواز میں درد و سنور تھا۔ غم دوراں اور غم جاناں کے ساتھ ساتھ ان کی حمد، نعت اور کربلائی شاعری بھی بہت متاثر کن ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر قاری روحانیت کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔

الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے۔
یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے۔

محسن نقوی نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی جس پر انہیں 1994 ء میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

اردو شاعری میں کئی نئی جہتیں متعارف کروانے والے صاحب طرز اور منفرد اسلوب کے شاعر محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وہ میر، غالب، انیس سے روایتی شعور کا سہارا لے کر علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری اور احمد ندیم قاسمی تک سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہیں مسلسل پڑھتے ہیں اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

محسن نقوی نے فلم ساز سردار بھٹی کی بھر پور فرمائش پرفلم ” بازار حسن” کے لیے ایک گیت ” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے” تحریر کیا ۔جس پر انہیں نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا۔ یوں محسن نقوی کا شمار دنیا کے بڑے گیت نگاروں میں ہونے لگا۔

محسن نے اپنی شاعری کے ذریعہ نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل کی۔

!میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
!!جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے

جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے

محسن نقوی نے اپنی شاعری میں روایتی محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔

ہوا اس سے کہنا
کہ جو ہجر کی آگ پیتی رُتوں کی طنابیں
رگوں سے اُلجھتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کس دیں
اُنہیں رات کے سُرمئی ہاتھ خیرات میں نیند کب دے سکے ہیں؟
ہوا اس کے بازو پہ لکھا ہوا کوئی تعویذ باندھے تو کہنا
کہ آوارگی اوڑھ کر سانس لیتے مسافر
تجھے کھوجتے کھوجتے تھک گئے ہیں

محسن نقوی کو ہم سے بچھڑے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی اپنے کلام کی وجہ سے عوام کے دلوں میں زندہ ہے ۔ آج اسی محسن نقوی کا جنم دن ہے جس نے ایک بار کہا تھا کہ

عمر اتنی توعطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

بعد ازوصال ان کے دو مجموعے خیمۂ جاں اور حق ایلیاء کے ناموں سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔ ان کے کچھ اشعار جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

محسن طلوع اشک دلیل سحر بھی ہے
شب کٹ گئی چراغ بجھا دینا چاہیے

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہو اکر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں