The news is by your side.

ضرورت کے تحت لائقِ تحسین فرد پاکستان کو نہیں ملتا

لیجئے قارئین جمہوریت کے سارے چیمپئن صراطِ مستقیم سے برملا ہوکر اپنے عالیشان گھروں میں لوٹ گئے اور عوام اپنے گھونسلوں میں خاموشی سے غربت کے انڈوں پر بیٹھے ہیں اور ایک بات ضرور ہوئی کہ انسانیت سوز تذلیل سے وقتی طور پر جان چھوٹ گئی ہے۔ اس ملک کی سیاست پر عوام قربان کہ گزشتہ دو ہفتے قبل سیاسی طور پر یکجاں نہ ہوئے، یہ نگراں وزیراعظم کے انتخاب کے لئے آپس میں الجھتے رہے اور اس مرتبے کے لئے دانشمندانہ فیصلہ نہ کرسکے اور ان سیاست دانوں نے ملک کو اس مقام پر کھڑا کردیا کہ سارا نظام جمود کا شکار ہوگیا ہو جیسے اس ملک میں نیک آدمی کو کسی اعلیٰ مرتبے پر لانے کے لئے جو سیاسی برائیوں سے برملا ہو کتنا مشکل کام ہے۔

اب بتائیے مصنوعیت کا راج اتنا تناور درخت بن چکا ہے کہ ضرورت کے تحت لائقِ تحسین فرد نہیں ملتا اور پھر شاید رب کو اس مفلس قوم پر رحم آہی گیا کہ نگراں وزیراعظم کے لئے جسٹس (ر) ناصر الملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تجویز ہوا۔ دعا ہے اس قوم کی کہ وہ اولیاءاللہ کی نیک مالا اس قوم کے گلے میں ڈال دیں، تاکہ یہ بھی سکون کا سانس لے سکے اور یہ خوشی کا سفر عارضی نہ ہو۔

اب یہ قوم مرہونِ منت ہے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی کہ اب عوامی چڑ چڑے پن کا دور آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف رواں دواں ہے اور فضول سیاسی مشقیں دم توڑ رہی ہیں۔ یہ سیاسی لوگ عوام کو سوئی ہوئی خلقت سمجھتے ہیں، ماضی کی پٹاریاں کھولتے ہوئے میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ70 سال سے جمہوریت کو کچھ لوگ پستی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

قارئین گرامی نوجوان طبقہ تاریخ سے کوسوں دور ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے طرزِ زندگی میں یہ دیو مالائی کہانیاں سمجھ نہیں آتیں اور انہیں یہ پتہ نہیں کہ جنہیں یہ خلائی مخلوق کہتے ہیں اور اس خلائی مخلوق نے پاکستان بچاکر ان کی بے ضابطگیوں کو نظر انداز کیا اور جنہیں یہ ڈکٹیٹر کہتے ہیں، ان کی انگلی پکڑ کر دریا پار کئے۔ یہ بہت غورو فکر کی بات ہے کہ یہ سیاسی حضرات اپنی ناکامی کو کامیابی کی طرف لے جانے کے لئے بھونڈے دلائل دیتے ہیں۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کا ساتھ نہیں دیا تھا مگر تاریخ اکثر سچائی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

1976میں بھی سیاست دانوں کی ناز برداریاں حد سے زیادہ بڑھیں اور یہ ایک دوسرے سے اخلاقی تقاضے ختم کرچکے تو پھر جنرل ضیاءالحق نے ان سب کی چھٹی کردی اور ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی ترجیحات کیا تھیں تو سب سے پہلے خلائی مخلوق کہنے والے ضیاءالحق کے دامن سے لپٹ گئے اور غیر جماعتی الیکشن میں جیت کر صوبائی وزیر بنے، اس کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور اس کے بعد وزیراعظم بنے اور تین مرتبہ بنے۔

1987ءسے لے کر2009ءتک برسرِ اقتدار رہے اور پرویز مشرف کے دور میں بھی انہی کے رفقاءان کے ساتھ تھے پھر2013ءمیں یہ دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو ایسا محسوس ہوا کہ جمہوریت کا حُسن اب دوبالا ہوگا مگر وہی ڈھاک کے تین پات یعنی کے لوٹا ماری، کرپشن، دادا گیری، قتل وغارت گری یعنی کے گدھوں کی اڑان پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی جبکہ ماضی میں ایک نعرہ اس ملک کے موثر نظام کے لئے لگا کر قوم کے جذبات کو پارہ پارہ کیا گیا کہ ”قرض اتارو ملک سنوارو“ اور عوام جوق درجوق اس نعرے کے پیچھے چل کر عمل پیرا ہوئی، نہ قرض اترا نہ ملک سنورا جبکہ اس کا حساب ابھی باقی ہے۔ یہی سیاست دان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جمہوریت نے مدت پوری کرلی مگر وعدے پورے کیوں نہیں کئے، ووٹ کو تو حقیر و ذلیل یہ سیاست دان کررہے ہیں۔

جانے والی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کی جو توہین کی اسے بھی تاریخ کا حصہ ایک نہ ایک دن بننا ہوگا۔ وزیروں کی کارکردگی دیکھ کر عوام میں تشویش کی لہر برف کی طرح جم گئی ہے، جمہوری قوالیاں گانے والے وزیروں کا حال دیکھیں، سابق وزیراعظم نواز شریف اور اس کے بعد ایک اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جب اس مملکت خداداد سے گئے تو 32 وفاقی وزرائے، 15 وزرائے مملکت، 3 مشیر اور 8 معاونین عوام کی طرزِ زندگی میں کوئی تبدیلی لائے بغیر چلتے بنے۔

ادھر نگراں حکومت کے6 وفاقی وزراءنے حلف اٹھالیا، جن میں حسین ہارون، ایم اعظم خان، ڈاکٹر شمشاد اختر، علی ظفر خان، روشن خورشید اور یوسف شیخ قابلِ ذکر ہیں، کسی بھی سیاست دان نے افراتفریح کا شور نہیں مچایا کہ کراچی سے لے کر خیبر تک یہ 6 وفاقی وزراءمختلف شعبہ ہائے زندگی کو کس طرح چلائیں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی طرف سے یہ6 افراد واجب الاحترام ہیں اور اعزاز واکرام کے لائق ہیں۔

ایم اعظم خان وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ الیکشن میں فوج کو خوامخواہ نہیں بلائیں گے، یہ وزیر داخلہ کی ایک سنگین غلطی ہوگی۔ (ن) لیگ کہتی ہے کہ ”ووٹ کو عزت دو“ پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ اگلی حکومت ہم بنائیں گے اور چاروں صوبوں میں وزیراعلیٰ ہمارا ہوگا۔ PTI اپنے لئے25 جولائی کے بعد اپنے فقید المثال استقبال کی منتظر ہیں، جب تینوں جماعتیں خواب و خیال کے گھوڑے پر سوار ہیں تو یہ سب سے بہتر ہوگا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔

پاکستان میں تین ادارے ہیں، فوج، سپریم کورٹ اور نیب۔۔۔ جس پر عوام تکیہ کر بیٹھے ہیں، لہٰذا اعظم خان صاحب کو چاہیے کہ سپریم کورٹ سے دانشمندانہ فیصلہ لیں اور پوری کوششیں کریں، الیکشن کمیشن بھی کوشش کرے کہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کرائے تاکہ سب سیاسی جماعتیں قواعد وضوابط کے حصار میں رہیں۔ ماضی میں بہت غلط فیصلے کئے گئے جو بعد میں ان سیاست دانوں نے بھگتے بھی۔

میاں صاحب اور زرداری صاحب نے مل کر58-2B ختم کی تاکہ سیاست دان کھل کر اپنی من مانی کرسکیں اور اختیاراتی دستانے پہن لئے مگر قدرت کا مکافاتِ عمل دیکھئے کہ58-2B کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور اس کے بغیر ہی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نا اہل ہوئے بعد از مرگ توبہ واستغفار کا دروازہ بند ہوجاتا ہے مگر یہ لوگ اس بات کو ماننے والے نہیں۔

قدرت کا ایک نظام ہے جس سے ہم نہیں لڑسکتے، سابق وزیراعظم نواز شریف نے مبارک دن جمعے کی چھٹی ختم کی اور اس مبارک دن کی تضحیک کی اس کا رزلٹ عوام کے سامنے ہے کہ موصوف چار مرتبہ نااہل ہوئے اور چاروں مرتبہ جمعے کا دن تھا۔

محترم چیف جسٹس ثاقب نثار نے نگراں وزیراعظم اور الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن25 جولائی کو ہی ہوں گے، جب 32 وفاقی وزراءکی جگہ6 وفاقی وزراءاچھی منصوبہ بندی کے تحت کام کریں گے اور سہولتوں کے فقدان کا دروازہ کھولے گا جو زنگ آلود ہوچکا ہے اور6 وفاقی وزراءوالہانہ کام کریں گے۔ قانون کی افادیت کا احترام، حرص، لالچ، چوری، کرپشن، رشوت ستانی، قتل وغارت گری سے برملا ہو کر بے لگاموں کو لگام ڈال کر قانون کی افادیت کا پرچار کرتے ہوئے عوام کو ہر اچھی بات میں فریق بناتے ہوئے تاریخی نا انصافیوں کا خاتمہ کرنے کی کوششیں کریں گے جو عوام اب تک جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں تو ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ شادمانی اور مسرت کے کچھ دن دیکھ لیں۔

رب پاکستان کو سلامت رکھے، کراچی سے لے کر خیبر تک وہی صوبے ہیں، وہی عوام ہے، وہی ادارے ہیں تو پھر 65 کی جگہ6 وفاقی وزیر کیوں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نگراں حکومت، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے کمرکس لی ہے کہ اس ملک کو برائیوں کی دلدل سے نکالنا ہے (اللہ معاف کرے) کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ مصائب اور آزمائشوں کے باوجود الیکشن وقت پر ہوں، اگر عوام سے ماضی میں کی جانے والی شاطرانہ چالوں کو دفن کردیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہوجائے۔

ویسے بھی محب وطن نیک اور پاکستان سے محبت کرنے والی عوام جو تھوڑا بہت بھی تعلیمی شعور رکھتی ہے اور وہ اس بات پر پُرعزم ہے کہ ہر حال میں الیکشن فوج کی سخت نگرانی میں کرائے جائیں، تاکہ ہار جیت کے بعد تشویش ناک صورت حال نہ ہو۔ اب اس سلجھی ہوئی قوم میں برداشت کا دم خم نہیں ہے، بھلا بتائیے20 کروڑ عوام کے ملک میں قابلِ ستائش اقدام صرف فوج اور ملکی عدلیہ ہی اٹھاتی ہے۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں