The news is by your side.

نئے پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز

پاکستان تحریک انصاف کے معروف رہنما اسد عمر سے کسی صحافی نے سوال کیا ’’سر !کیا آپ کو نظام میں کوئی خرابی نظر آئی ؟‘ یہ سوال حالیہ عام انتخابات 2018 کے تناظر میں پوچھا گیا تھا۔ چونکہ اسد عمر اپنے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے ۔ لہذٰا ان کا جواب نفی میں آنا فطری امر تھا۔ اسد عمر نے صحافی کو جواب دیا ’’مجھے نظام میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی ‘‘۔
آئیے اب حالیہ انتخابات کے تناظر میں رونما ہونے والے کچھ واقعات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

حالیہ عام انتخابات کےلیے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارا نظام چوروں ،قاتلوں ، ٹیکس نا دہندگان اور بدعنوان سیاسی مافیا کو انتخابی عمل کا حصہ بننے سے روکنے میں ناکام نظر آیا ۔ ایسے افراد جب انتخابی عمل کا حصہ بنے تو ان میں سے بہت سے مایہ ناز اور مخلص سیاست دانوں کو شکست دینے میں بھی کامیاب رہے۔

کئی حلقوں میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ، جس کے سبب کئی حلقوں میں ووٹوں کی دوبار ہ گنتی کرنا پڑی ۔

ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کی باری آئی تو ہم نے دیکھا کہ تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو انتخابی نتائج میں مخالفین پر واضح برتری کے باوجود حکومت سازی کےلیے کئی ایسی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑرہا ہے جن کے ماضی پر سوالیہ نشان موجود ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال وفاق میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہے۔ نمبر گیم پوری کرنے کےلیے تحریک انصاف کو مرکز میں ایم کیو ایم کے علاوہ ق لیگ ، جی ڈی اے ، اور بی این پی جیسے اتحادی بھی قبول کرنا پڑے، جو یقیناً آگے چل کر ان کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

اسی طرح تختِ لاہور کے حصول کی دوڑ میں شامل پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این نے بھر پور طریقے سے جوڑ توڑ کی سیاست کی ۔ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی تختِ لاہور کی سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آنے میں کامیاب ہوگئی۔ تختِ لاہور کے حصول کےلیے پی ٹی آئی کی سب سے اہم اتحادی جماعت ق لیگ ہے۔ مزید یہ کہ آزاد امیدوار بھی جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ۔ نمبر گیم میں سبقت لینے اور اپنے مخالفین کی تعداد کم سے کم کرنے کےلیے حکومت سازی کے مرحلے پر کئے گئے کچھ اتحاد غیر فطری ہیں جو مستقبل میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سردرد بن سکتے ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد ، عثمان ڈار جیسے متعدد قابل ستائش افراد انتخابی عمل کے دوران ہی باہر رہ گئے۔ جبکہ دوسری طرف کئی ایسے لوگ پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئےہیں جن پر کئی جرائم کی تحقیقات چل رہی ہیں۔

خیر یہ تو انتخابات سے قبل کا مرحلہ تھا اور فی الحال ہمارا نظام قبل از انتخابات، انتخابی اصلاحات نہ ہونے کے باعث امیدواروں کی اسکروٹنی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اور آج عمران خان کے نئے پاکستان میں اگر آزمودہ کھلاڑی حکومت سازی کے عمل پر اثرانداز ہورہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی ہمارا نظام ہی ہے ۔ جب عمران خان حکومت سازی کے مرحلے سے گزر چکیں گے تب اگلا مرحلہ حکومت چلانے کا ہوگا۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کو فیصلہ سازی میں اتحادی جماعتوں کی رائے کو اہمیت دینا پڑتی ہے تاکہ اتحاد برقرار رہے۔ لہذٰا پی ٹی آئی کوحکومت بنانے سے لے کر چلانے تک روز ایک نیا معرکہ درپیش ہوگا۔

ہمارے نظام کے یہ خونی اور مضبوط پنجے اب پی ٹی آئی کی حکومت کو دبوچنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ اور یقیناً یہ سب ’نیا پاکستان ‘بنانے کے علمبردار عمران خان کے لیے آزمائش کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان درپیش چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں؟؟؟ جبکہ انہیں حزبِ اختلاف کے بینچوں سے ن لیگ ، پی پی پی اور ایم ایم اے کی بھرپور مزاحمت کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں