The news is by your side.

اسلامو فوبیا۔۔ کیا مغرب تصادم کی راہ پر ہی چلے گا

15 مارچ 2019 کو ہونےوالےافسوسناک سانحہ کرائسٹ چرچ ، نیوزی لینڈ نےدنیا بھرمیں ہرانسانی ہمدردی رکھنے والی آنکھ کواشکبارکیاہے ۔ کیا صرف ایک فردِ واحد آسٹریلوی حملہ آور اس کا ذمہ دار تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ایسی سوچ کارفرما ہے , کہ جسے فروغ دینے میں حصہ لینے والا ہر شخص سانحہ کرائسٹ چرچ ، نیوزی لینڈ کا ذمہ دار ہے۔ اور وہ سوچ ہے ’اسلاموفوبیا ‘ ۔ 9/11 کے بعد امریکی تھنک ٹینکس نے جان بوجھ کر ’اسلاموفوبیا ‘ کی افزائش کی ۔ اور دنیا بھر میں ان تصورات کو پختہ کرنے میں مغربی میڈیا نے ہراول دستے کا کردار اداکیا۔ اسلام , مسلمان، حجاب ،مسجد اور مدرسے کو دہشت گردی کی سےعلامت سے تعبیر کیاجانے لگا۔

آج سانحہ کرائسٹ چرچ یقیناً اسلامو فوبیا کے خلاف مغربی رائے عامہ ہموار کرنے کا بھی اہم سبب بنا ہے۔ اگر مغرب اس سانحے کو مثال بنالے تو ’اسلاموفوبیا ‘ کا سدباب ممکن ہے۔ اس سلسلے میں پہل خود نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے کی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن اور ان کی انتظامیہ کے اس ضمن میں اقدامات اورآسٹریلوی Egg Boy Will Connolly کا نام خاص طور پرقابل ذکر ہے۔

دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس طرف جانا ہے؟ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے , جس کے پاس آگے بڑھنے کےلیے دو راستے موجود ہیں۔ پہلا راستہ تہذیبی تصادم کا ہے جس کی بنیاد اسلاموفوبیا پر رکھی گئی ہےاور اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیب کا حریف قرار دیا گیا ہے۔ کیا دنیا اتنے بڑے تہذیبی تصادم کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیونکہ یہ ایک نہ ختم والےتہذیبی تصادم کو جنم دے سکتا ہے ،جس کا نتیجہ یقیناً تباہ کن ہوگا۔ مگر افسوس کہ امریکہ اور مغرب دونوں نے ہی 9/11کے بعد سے اسلام کے خلاف مستقل نفرت کے بیج بوئے ہیں ۔ اسلام کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنے والے بضد رہے ہیں کہ اسلام دہشتگردی اور انتہاپسندی کا پرچار کرتا ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ ، نیوزی لینڈ نے اسلام کے متعلق ان تصورات کی نفی کردی ہے ۔ اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کسی بھی مخصوص مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آج دنیا بھر میں اس مسلم بیانیے کی جیت ہوئی ہے ۔ شہداء کرائسٹ چرچ ،نیوزی لینڈ کا لہو رنگ لا رہا ہے۔ یہی وہ لہو ہے جو دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچاکر بین المذاہب ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ وہ لہو ہے جو کہ انتہاپسندی کو شکست فاش دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اور ہروہ شخص جو دہشت گردی کو کسی مخصوص مذہب سے جوڑنا چاہے گا ۔ اب وہ ایسا نہیں کرپائے گا ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوبھی سانحہ کرائسٹ چرچ کےحوالے سے اپنامئوقف بدلناپڑا۔ صدیوں پرانے مسئلہ سفید فام نسل پرستی کےحوالےسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا تاریخی اعترافی بیان ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک نتیجہ خیز مکالمے کی جانب بڑھے ۔ اور لوگوں کو بتایا جائے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب دہشت گردی کا پرچار نہیں کرتا ہے بلکہ تمام مذاہب انسانی ہمدردی ، اخوت و مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں اور دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

اگر 9/11کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا سرسری جائزہ لیاجائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر کوئی دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے تو وہ مسلمان ہیں ۔ اگر کوئی سب سے زیادہ تباہ حال ہے تو وہ افغانستان،عراق اور شام جیسے جنگ زدہ مسلم ممالک ہیں ۔ اگر کوئی سب سے زیادہ مظلوم ہے تو وہ کشمیر ،غزہ / فلسطین اور روہنگیا کے محکوم مسلمان ہیں جو کہ عرصہ دراز سے بھارتی ، اسرائیلی اور میانمار کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں ۔

اس پر ستم ظریفی یہ کہ جارحیت ، اور ظلم و جبر کا شکار مسلمانوں نے اگر اپنے جائز حقوق کےلیے آواز اٹھائی تو ان فریڈم فائٹرز پر بھی دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔

سمجھوتہ ایکسپریس کیس کے فیصلےمیں بھارتی عدالت نے42پاکستانیوں کےقاتل 4ملزمان کوبری کردیا ۔ بھارت بھی اسلاموفوبیا کا شکار ہے ۔ لگتاہے کہ مودی سرکار نے سانحہ کرائسٹ چرچ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اسی ضمن میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق ہرزہ سرائی بھی انتہائی تشویشناک ہے ۔ تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ امریکہ نے سب سے پہلے’اسلامو نیوکلئیر فوبیا‘ کا تصور اجاگرکیا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں