The news is by your side.

اللہ کو ہماری بے روح عبادتوں سے کوئی غرض نہیں

افسوس کہ ہم اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ ہم سے ہی کسی دوسرے مسلمان کی خوشیاں، صحت ، عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ جس معاشرے میں استاد عزتوں کے لٹیرے اور ڈاکٹر قصائی بن جائیں۔ جس معاشرے میں اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں اور ہسپتال مالی بے ضابطگیوں اور پیشہ وارانہ کوتاہیوں کا منظر پیش کریں اور موت بانٹنے لگیں ۔ تو پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نفس کے لالچ اور مال و دولت کے لیے دنیا کے اس حد تک طلبگار بن چکے ہیں کہ ہم نے آخرت کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔

ہم دنیا کی ہوس میں خوفِ خدا کو دل سے نکال چکے ہیں ۔ ہم اسوہ رسول ﷺ کو بھول چکے ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک دنیا طلبگار ہے مگر آخرت کی کسی کو فکر نہیں ۔ یہ دنیا کی زندگی تو فانی ہے ۔ لوگو !!! موت کی سختی کو یاد کرو ،قبر کے عذاب کی فکر کرو، دوزخ کی آگ کا تصور کرو، روز محشر کا خوف محسوس کرو ۔ ورنہ پھر کیا سیکھا ماہ رمضان سے؟؟؟ کتنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹیں ؟؟؟ صرف ماہ رمضان میں مسجدیں بھر کر ہم کبھی مومن نہیں بن سکتے ۔ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی پورے کرنے سیکھنے ہوں گے ۔ کیونکہ ” مومن وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ” ۔

یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے ، جھوٹ، غیبت ،چوری، زنا ، ملاوٹ ،دھوکہ دہی ، رشوت ستانی ، ذخیرہ اندوزی ، بجلی چوری ، جعل سازی عام ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک بزعم خویش یہ سمجھتا ہے کہ سارے مسائل حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں، جنہيں حل کرنا بھی صرف اربابِ اختیار کا کام ہے۔ مگر ٹھہرئیے !!!جھانکنے کی بہترین جگہ انسان کا اپنا گریبان اور خود احتسابی کی بہترین جگہ اپنا ضمیر ہوتا ہے۔ کبھی ہم نے خود کا احتساب کیا؟؟؟ نہیں نا !!! یہ اربابِ اختیار ہمارا ہی تو انتخاب ہوتے ہیں ۔

اگر ہم میں سے ہر ایک خود احتسابی کو مشعلِ راہ بنالے، اگر ہم میں سے ہر ایک بطور پاکستانی شہری قانون کے احترام کو اپنا شعار بنالے ۔ اگر ہم سے ہرایک اپنی ذاتی ، اخلاقی، اور معاشرتی زندگی کی کوتاہیوں پر نظرثانی کرلے تو ہمارے آدھے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے۔ اس کی مثال یوں ہی ہے کہ ’’مقامی حکومت سے شہر کا کچرا صاف کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے اگر ہم کچرا پھیلانا چھوڑ دیں اور صفائی کا خیال رکھنے لگیں تو اپنی مدد آپ کے تحت بھی ہمارے شہر سے آلودگی کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی ‘‘۔ اگر ہم باعمل مسلمان اور ذمہ دار شہری بنیں گے تو یقین کیجئے جرائم کی شرح بھی کم ہوگی ، منتخب عوامی نمائندگان بھی خود کو زیادہ جواب دہ سمجھیں گے ۔

ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی تو قانون نافذ کرنےوالے اداروں اور عدلیہ کا کام بھی آسان ہوجائے گا۔ اگرامراء ٹیکس، زکوٰۃ، فطرانہ اور عشر ایمانداری سے ادا کرنے لگیں گے تو غربت میں کمی آئے گی ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم رشوت دینا بندکردیں تویقین کیجئے سرکاری دفاترمیں رشوت ستانی میں کمی آئے گی ۔

معاشرے میں نکاح عام کیجئے تو زنا کےراستے سے بچاو ٔممکن ہوسکےگا ۔ جہیز کی لعنت ختم کیجئےتاکہ غریب بھی بیٹی کو باعزت طریقےسے رخصت کرسکے۔ مردعیاشی چھوڑدےتوکوئی حوا کی بیٹی سربازار طوائف نہ بنے گی۔ دوسروں کی ماؤں بہنوں اوربیٹیوں کی عزت کا ہرمرد یہ سوچ کرخیال کرےکہ کل کو وہ بھی تو بیٹی کا باپ بن سکتا ہے اوردنیا مکافاتِ عمل ہے۔ انسان جوآج بوئےگا , کل کو وہی کاٹےگا۔ تویقین کیجئے عزتیں پامال نہیں ہوں گی ۔

کوشش کرکے تو دیکھیے !!! دوسروں کا دکھ درد محسوس کرکے اور اسے بانٹ کر تو دیکھیے۔ وہ حقیقی معنوں میں سکون و اطمینانِ قلب نصیب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمضان کے صدقے میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ غریبوں ،محتاجوں، یتیموں اور بیواؤں سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے ۔

اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کے صدقے میں ہم میں سے بھٹکے ہوئے ہر مسلمان بھائی اور بہن کو نورِ ہدایت عطا فرمائے ۔ اگر آپ دولت مند ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو مخلوق خدا پر خرچ کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ اگر آپ متوسط یا تنگ دست ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے رزق میں برکت عطا فرمائے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اذہان و قلوب میں خوفِ خدا , خشیت رسول ﷺ , فکر آخرت پیدا فرمائے اور ہمیں دنیا کی ہوس اور لالچ سے پناہ عطا فرمائے ۔ اور ہمیں حقیقی معنوں میں رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطافرمائے ۔ اور ہمیں حرام کی کمائی سے توبہ اور خود احتسابی کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یارب العرش !!!

یہ بات یاد رکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کو ریا کارانہ نماز ، حج اور قربانی کے خون سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ تو ہمیں بس مخلوق خدا میں آسانیاں تقسیم کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ اور خدمت خلق میں بہت خیرو برکت ہے ، اوربس یہ ہی میرا پیامِ رمضان ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں