The news is by your side.

شادی نہ کرنا یارو

دوستو! شنید یہ ہے کہ ا ب شاید سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے! مگر یاد رہے کہ ہماری حکومت اور ادارے اتنے ظالم نہیں کہ آپ کو اپنے ہی گھر میں سانس لینے پر ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ہرگز نہیں۔ گھروں میں سانس لینے پر آپ پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ہاں،سرکاری دفتر میں قدم رکھتے ہی آپ ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے اور کسی افسر اعلی ٰکے آگے پیش ہوں گے تو ٹیکس کی شرح بڑھ سکتی ہے۔

اس لئے ایسے کسی فیصلے کے بعد اگر سرکاری دفتر جانا ہو تو بلاوجہ بڑے افسر سے ملنے کی ضد مت کیجئے گا، بلکہ چھوٹے موٹے کلرک سے کام چلانے کی کوشش بہتر ہو گی۔ اسی طرح شاید مستقبل میں پبلک مقامات پر سانس لینے والوں کو بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ اس حوالے سے وصولی کا خاص انتظام کیا جائے گا اور ٹیکس کی ادائیگی کو آسان بنایا جائے گا۔ بھئی اتنے ٹیکس اس لئے کہ سرکاری خزانہ بھی تو بھرنا ہے تاکہ ترقیاتی کام کروائے جاسکیں اور حکومتی نمائندوں اور سرکاری اداروں کے عملے کے اور ان سے متعلق دیگر اخراجات پورے ہوسکیں۔

میری اس تحریر کا سبب وہ خبرہے کہ جس کے مطابق اب شادی کرنے پر ایف بی آر کو 20 ہزار روپئے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں اداکرنا ہوں گے۔ کچھ لوگ اسے ظالمانہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلہ قرار دے رہے ہیں جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ ایف بی آر نے لوگوں کی خوشیوں میں ’شریک‘ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہاں بھئی واقعی، ہم وطنوں کی خوشی میں بھلا ریاست کیوں نہ خوش ہو۔

خوشی کی اس تقریب کو چھوڑیں مگر اب شائد ہمارے غم منانے کے لئے منعقدہ تقریبات پر بھی ٹیکس ادائیگی لازمی ہوگی۔ خوشی اور مسرت کے حوالے سے اس کی ابتداءتو شادی خانہ آبادی کی تقریب سے ہو گئی ہے۔ ابھی اگرچہ اس کا دائرہ محدود ہے، مگر جلد ہی محکمہ ٹیکس (ایف بی آر) اسے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا دے گا اور یوں ملک بھر میں شادی ہال میں تقریب منعقد کرنے والے دولہا ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کریں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کسی میدان میں شامیانہ سجا لیں، وہاں اس ٹیکس کا اطلاق نہیں ہو گا۔

ہو سکتا ہے اب کچھ دلہنوں کو کم منہ دکھائی ملے کیونکہ اکثر دولہا ایف بی آر کو اس خوشی میں حصہ دینے کے بعد نئی نویلی دلہن سے ’ریلیف‘ طلب کریں گے اور پہلی ملاقات میں جب دولہا پہلی بار کوئی رعایت چاہے گا تو عروسی لباس میں شرماتی لجاتی دلہن انکار نہیں کرسکے گی۔ ایف بی آر کا یہ ٹیکس شادی ہالوں میں بندھنے والے جوڑوں پر لاگو ہوگا۔ فی الحال سرکاری ادارہ جنوبی پنجاب بہاولپور ڈویژن سمیت راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ گوجرانوالہ اور آزاد کشمیر کے علاقوں کے نئے جوڑوں کی خوشیوں میں ’شریک‘ ہو گا۔ آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے کہ پورا پاکستان خوشی اور مسرت کے ان لمحات کو ایف بی آر کے سنگ یادگار بنائے۔

ہم سوچ رہے تھے کہ اسی مناسبت سے حکومت یہ بھی کر لے تو کیا برا ہے کہ نئے جوڑے کے ہاں پیدائش پر ماں کے علاوہ باپ سمیت جتنے بھی لوگ بچے کو دیکھنے آئیں وہ اس کے ننھے منے ہاتھوں میں سلامی رکھنے سے پہلے ایف بی آر کی ’قانونی مٹھی‘ گرم کرے۔ بھئی ادارہ خوشی منائے تو پھر بھرپور اور مکمل خوشی منائے نا۔

اگر سنجیدگی سے بات کروں تو یہ عجیب عجلت میں کیا گیا اور بڑی حد تک ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس ملک میں جہاں غربت اور جہالت عام ہے۔ لوگ پانی بجلی، کھانے پینے کی اشیاءکی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں اور دیگر مسائل کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہے ہیں اور ایسے میں یہ فیصلہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہاں تو مردہ بھی تدفین کے لئے کم از کم تیس، چالیس ہزار روپئے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایف بی آر اور ماہرین نے یہ سوچا ہے کہ اس کے کسی خاندان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ شادی ہالوں کا کرایہ ویسے ہی آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور دوسری جانب شادی کے دیگر لوازمات اور اخراجات پہلے ہی عام ملازمت پیشہ کے لیے عذاب سے کم نہیں ہیں۔ اور اس حوالے سے خاص طور پر لڑکیوں کے والدین کی تو گویا ایک بیٹی بیاہنے ہی میں کمر ٹوٹ جاتی ہے، ان حالات میں اس قسم کے فیصلوں کو ہماری دانشمندی اور جرات کہا جاسکتا ہے؟۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں