The news is by your side.

اپوزیشن‘ عمران خان سے ناراض ہے یا ریاستِ مدینہ کے اعلان سے

اعظم عظیم


یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بدگمانیاں دوریاں پیدا کردیتی ہیں، اِنسان کو اتنا بھی بدگمان نہیں ہونا چاہئے، جتنی کہ آج الیکشن میں ہماری ہاری ہوئیں اپوزیشن کی جماعتیں ہیں،آج سب کو چاہئے کہ جو جیت گیاہے، اُسے ہنسی خوشی اقتدار سونپ دیاجائے، اور اِسے یکسوئی سے اُمورِ مملکت چلانے دیاجائے اور اپنی ہار پر خاموش رہ کراپنی اصلاح کرتے ہوئے آگے کا مثبت لائحہ عمل تیار کرناچاہئے۔

اَب یہ کیا بات ہوئی ؟کہ گزشتہ دِنوں اسلام آباد میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن اتحادی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے سربراہ شہباز شریف ، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے چیئرمین آصف زرداری اور بلاول زرداری جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اپنے سربراہ اسفندیار ولی کی شمولیت کے بغیر ، متحدہ مجلسِ عمل سمیت دیگر ہارے ہووں کی اِدھر اُدھر کی ہم خیال جماعتوں نے ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر احتجاج کی ابتداءکی، پھراِس کا دائرہ کار سارے مُلک میں پھیلا دیاگیاہے اور اِس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے اپنا یہ مطالبہ بھی کردیاہے کہ اسمبلی میں اِن کے حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنایاجائے؛ اُمید ہے کہ متوقع محترم المقام عزت مآب وزیراعظم عمران خان عملی جامہ پہنانے میں پس و پیش سے کام نہیں لیں گے اور آگے بڑھ کر ہاری ہوئی اپوزیشن جماعتوں کے غصے کو ٹھنڈااور کم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

حالاں کہ آج وطنِ عزیز میں 25جولائی 2018ءکو ہونے والے اپنی نوعیت کے صاف وشفاف اورمُلکی تاریخ کے21ارب کے مہنگے ترین الیکشن کو ہوئے کا فی دن گزرچکے ہیں، مگرجیتنے والی پارٹی کی حکومت سازی میں شکست خوردہ اپنی حرکتوں سے رغنہ ڈالنے سے باز نہیں آرہے ہیں ،اپوزیشن جماعتوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے کو نہیں آرہاہے، اَب اپوزیشن جماعتیں فیصلہ کریں؛ کہ یہ عمران خان سے ناراض ہیں؟ یااُن کے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے ، وزیراعظم ہاو ٔس میں نہ رہنے اور گورنر ہاوسز کو مفادِ عامۃ الناس کے لئے استعمال کرنے والے اعلانات اور عزم کے خلاف ہیں؟۔

راقم کو تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ آج جیسے طویل عرصے تک مُلکی ایوانوں پر قابض دوجماعتی ن لیگ اور پی پی کا طرزِ حکمرانی اور سیاسی ڈرامہ سمیٹ دیاگیاہے کیوں کہ آج ووٹرز نے ووٹ کو عزت دو اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر پی ٹی آئی کے دامن میں اقتدار ڈال دیاہے ؛ تاہم عالمی برادری کے ساتھ جدید خطوط پر استوارنئے پاکستان کے خواہش مندوں کی عمران خان سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں اور کیوں نہ ہوں؟کیوں کہ عمران خان نے نئے پاکستان اور اِسے مدینہ جیسی ریاست بنانے کے نام پرتو ووٹ لیے ہیں۔

آج اِسی لئے تو ہاری ہوئی اپوزیشن جماعتوں کو عمران خان کی 26جولائی 2018ءکی عوامی تقریر میں مُلک کو مدینہ جیسی ریاست بنائے جانے والے اعلان پہ زیادہ غصہ آرہاہے۔ اِس لئے کہ یہ سب ہاری ہوئی جماعتیں اچھی طرح سے سمجھتی ہیں کہ اگرآج عمران خان نے اپنی جیت کی خوشی اور جوش میں ارضِ مقدس پاکستان کو حقیقی معنوں میں مکمل اسلامی طرز پر مدینہ جیسی ریاست بنادیا۔(جیسا کہ اِس کی فطرت اور عادت میں ہے کہ یہ اللہ کی مددسے جو کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے اُسے کرکے ہی دِکھاتاہے اور اِس میں شک نہیں ہے کہ عمران خان نے مُلک کو مدینہ طرز کی ریاست بنانے کا عزم کرلیاہے؛ تواَب سب اِدھر اُدھر والے خاطر جمع رکھیں۔ یہ اپنے کہے کو سچ کرکے ہی دِکھائے گا) تواِن سب ہارے ہووں کا جمہور اور جمہوریت کے نام پر چلنے والا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا؛یوں یہ سب ہارے ہوئے نیچے آن گریں گے، آج اِسی لئے حالیہ الیکشن میں تمام شکست خوردہ عناصرسترسال سے اپنے نام نہاد جمہوراور جمہوری کاروبار کی اوٹ میں جاری اپنی لوٹ بازاری کوجاری رکھنے کے لئے یکدل اور یک زبان ہوکر سینے سے سینہ اور شا نے سے شانہ ملا کر کھڑے ہو گئے ہیں اور عمران خان کو اقتدار کی منتقلی کے خلاف ڈٹ کر سا منے آگئے ہیں ۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج جہاں مفاد پرست شاطر سیاسی ٹولہ جمہوریت کا لبادہ اُڑھ کراپنی ہار کی وجہ بننے والے فارم 45کی عدم دستیابی کا ڈھونگ رچاکر سارے الیکشن کوہی کالعدم قرار دلواکر اپنی مرضی کے ایک پاو ٔ گوشت کے چکر میں سارا بیل ذبح کرنا چاہ رہاہے۔ تو وہیں دوبارہ الیکشن کرانے کا سر پھوڑ جان چھوڑ مطالبہ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہاہے۔ آج یقینی طور پریہ ہاری ہوئی متحدہ اپوزیشن جماعتوں کی سُبکی ہے؛ اِنہیں جس کی وجہ سے یہ ساری ڈرامہ بازی کرنی پڑ رہی ہے، ورنہ جانتی تو یہ بھی ہیں کہ دراصل اِن سب کی پانچ سالہ وہ فرسودہ کارکردگی ہے؛ آج جوہار کی بڑی وجہ بنی ہے۔ مگر اَب یہ سب جان کر بھی نہ مانیں، تو یہ اِن کا اپنا قصور ہے ؛ بھلایہ کیسے ممکن ہوسکتاہے؟ کہ آپ عوام کے مسائل حل کرنے اور پریشانیاں دور کرنے کا وعدہ کرکے ووٹ لے کرتو اقتدار حاصل کریں،اور جب اقتدار کی چڑیاہاتھ لگ جائے، تو پھر ووٹر ز اور اِس کے مسائل و پریشانیوں کو بھول کر قومی خزا نے سے اپنے اللے تللے میں لگ جائیں۔ پھرجب سر پر انتخابات کی گھنٹی بجے تو ووٹرز کی دہلیز پر جایاجائے، توپھر ووٹر بھی کیوں کسی دھوکے بازاور آزمائے ہوئے کو ووٹ دے گا؟آپ نے جس طرح پانچ سال تک ووٹرز کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اِسے اور اِس کے مسائل اور پریشانیوں کو لات مارا،لیکن الیکشن والے روز یہ تو ووٹرز کا حق بنتا ہے کہ اُس روز یہ تمہیں لات مارے اور تمہیں بھی اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر تم سے فٹبال کھیلے..!!دیکھ لیا حالیہ عام انتخابات میں ووٹرز نے پلٹ پلٹ کر اقتدار میں آنے والی دوجماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کے بجائے پی ٹی آئی کو جیتا کر دونوں کو اِن کی اوقات بتادی ہے،اگر یہ ابھی اپنے گریبانوں میں نہ جھا نکیں اور اپنا محاسبہ نہ کریں تو پھریہی اُمید ہے کہ آئندہ بھی اِن کا حشر ایسا ہوگا ۔

بہر کیف ، اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ عمران خان کو یہ کامیابی اِن کی مستقل مزاجی عزم و استقلال کے بدولت نصیب ہوئی ہے،راقم کو یقین ہے کہ اِن کی یہی مستقل مزاجی اور پُراعتمادی اقتدار کے سیج کے کانٹوں کو بھی گل و گلزار میں بدلنے کی پوری طرح کارآمد ثابت ہوگی اور اِن کی شخصیت مُلک کو درپیش معاشی بحرانوں اور عالمی سطح پر پریشانیوں کے شکنجے سے نکال کرترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کردے گی ۔درحقیقت عمران خان، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خوابوں کی تعبیر ہیں ،جواِن کی شکل میں ستر سال بعد مُلک اور قوم کو نصیب ہوئی ہے،اُمید ہے کہ عمران خان اقتدارکے بوچھ کو اپنی صلاحیتوں سے اُٹھالیں گے اور مُلک اور قوم کی بحرانوں کے طوفان اور سمند ر کی لہروں میں ہچکولے کھاتی ناو ٔ کو بچاکر نکال لیں گے اور کنارے پر لگا دیں گے۔اَب اِس پر اِن سے جلنے والے حاسدیں جلیں تو بھلے سے جلیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں