The news is by your side.

دنیا میں غریب کم ہونے لگے اور پاکستان میں۔۔

اعظم عظیم


لیجئے،یہ مضحکہ خیز خبر بھی پڑھ لیں، اَب اِس پر آپ کتنا یقین کرتے ہیں یہ آپ پر چھوڑتے ہیں ، خبر ہے کہ حیرت انگیز طور پر جبکہ آج کی 21ویں صدی میں سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہے ہیں، تو وہیں یہ دعویٰ بھی کیا جارہاہے کہ دنیا بھر میں غربت میں کمی آنے لگی ہے ۔عالمی اقتصادی فورم نے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کے ہمراہ دنیا کے 188ممالک کا سروے کرنے کے بعد اپنی نئی ماہانہ رپورٹ میں والہانہ انکشاف داغ دیاہے کہ دس ہزار سال میں پہلی بار دنیا میں غریبوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے ۔رپورٹ میں وثوق کے ساتھ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیاکی آبادی کا پچاس فیصدیا 3ارب 80کروڑ افرادکا شمارمڈل کلاس یا امیر خاندانوں میں ہونے لگاہے۔ جبکہ اتنی ہی تعداد کو رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ لوگ غربت یا اِس سے نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔

یہاں رپورٹ کی پہلی والی بات پر تو یقین نہیں کیا جاسکتاہے۔ البتہ، دوسری بات پر اِس اضافے کے ساتھ یقین ضرور کرلیاجائے کہ دنیا میں غربت یا اِس سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے والوں کی تعداد کئی گنا زائد بڑھ گئی ہے ۔جبکہ سینہ ٹھونک کریہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق ہر سیکنڈ میں پانچ لوگ مڈل کلاس گھرانے میں شامل ہورہے ہیں، ماہرین کا گردنیں تان کر کہنا ہے کہ مڈل کلاس میں داخل ہونے والے ہر دس میں سے نو کا تعلق چین، بھا رت جنوب اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے ہے۔

حیرت انگیز طور پر عالمی اقتصادی فورم کے اعدادوشمار کے مطابق 2030ءتک چین اور بھارت میں مڈل کلاس مارکیٹ 14اعشاریہ ایک کھرب ڈالر اور 12اعشاریہ3کھرب جبکہ امریکہ میں یہ 15اعشاریہ 9کھرب ڈالر تک ہوگی ،مزید یہ کہ رپورٹ کے مطابق امیر افراد کی دولت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ، ایسے میں خود سوچیں کہ ہم با ئیس کروڑ کہاں کھڑے ہیں؟ کیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ عالمی اقتصادی فورم نے دعوی کیا ہے؟ یا دال میں کچھ کالاہے؟ کچھ بھی ہے؟ مگر اِتنا ضرور ہے کہ ہمیں تو لوٹ لیا ہے کرپشن والوں نے…!! ورنہ، آج ہم بھی امیروں کی صف میں کھڑے ہوتے،چلیں کبھی نہ کبھی ہماری بھی امیروں کی صف میں کھڑے ہونے کی باری آئے گی ۔ کیوں کہ اَب ہمارے یہاں بھی جیسے تیسے کچھ بُرائی کی شکل میں اچھائی کی صورت دُھندلائی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔

بہر کیف ،دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کے بہت سے دُشمن ہوتے ہیں، مگر اِس پرتو سب ہی متفق ہیں کہ جمہوریت کی بڑی دُشمن آمریت ہے ،اَب جس ملک میں آمریت گورکن اور جمہوریت مرحوم و مغفور بن جائے،وہاں صرف جمہوریت کا کُتبہ باقی رہتاہے ۔جبکہ اُس ملک میں عوام یتیم اور ادارے بوسیدہ قبور کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ایسا بدقسمتی سے برصغیر کے ایک دیس پاکستان میں ستر سال سے ہورہاہے۔

اَب ایسے میں جمہوری پیادے اپنی جانیں بچا نے کے لئے اپنی سانس کی آواز کو بھی نہ چھپا ئیں تو پھر کیا کریں۔؟اِس میں شک نہیں کہ آج جمہوری پیادوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہاہے یہ اِن کے سیاہ کرتوتوں (کرپشن ، لوٹ مار، اقرباءپروری ، اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی خزا نے کاذاتی اور سیاسی لحاظ سے بیدریغ استعمال اور قومی ترقیاتی منصوبوں سے کمیشن اور پرسنٹیج سے اپنے اکاونٹس بھرنا )ہیں۔آج جب یہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں، تو جمہوریت کو آمریت کے ہاتھوں خطرہ قرار دے کر خود کو دنیا کے سا منے مظلوم ظاہر کررہے ہیں ۔جبکہ آج اِن کے کڑے احتساب اوربُرے انجام کی بڑی ذمہ دار اِن کی اپنی کرپشن اور قومی خزا نے سے بیدریغ لوٹ مار ہے۔اپنی ایسی پکڑ کے بعد اپنے ایسے کڑے احتساب کی جانب کبھی اُنہوں نے سوچنا گوارہ نہیں کیا تھا۔ اگرکبھی یہ اپنا محاسبہ کررہے ہوتے تو ممکن ہے کہ یہ کرپشن سے بچ جاتے اور اِنہیں ایسی ذلت اور رسوائی کا منہ بھی دیکھنا نہ پڑتاجیسا کہ آج اِن کے ساتھ ہورہاہے۔ یہ سب اِن عیار ومکار سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی لوٹ مارہے کہ آج یہ سارے سیاہ کرتوتوں والے احتساب کے اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اپنے انجام کو پہنچنے کو ہیں۔یقینا یہ اِن کرپٹ عناصر کا ہی سب کیا دھراہے کہ پانچ سے دس سال کے عرصے میں مُلک قرضوں کے حوالے سے اربوں کھربوں ڈالر ز کی بلند ترین سطح کو پہنچ چکاہے۔

آج اگر مُلک اِتنے قرضوں کے بوجھ تلے نہ دباہوتا،تو عین ممکن تھاکہ یہاں بھی عوام کو بنیادی سہولیات زندگی پوری طرح میسر آتیں ۔ مگر افسوس ہے کہ جنوبی ایشیا کے اِس ایٹمی مُلک میں جتنے بھی حکمران کسی بھی شکل میں آئے سب نے قومی خزا نے کو اپنے اللے تللے کے لئے استعمال کیا، آج جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم مفلوک الحال اور مُلکی معیشت زمین بوس ہوتی چلی گئی ،مگر جب قومی لٹیروں اورمخصوص انداز کے مفادپرست مٹھی بھر جمہوریت کے دلدادہ عناصر پر اداروں نے ہاتھ ڈالاہے ، تو سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چانٹوں نے تُرنت جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کا نعرہ بلند کردیا ۔

اِس میں کو ئی دورائے نہیں ہے کہ لگ بھگ 22کروڑ والی آبادی پر مشتمل مُلک کو اِس کے حکمرانوں، سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور اِدھر اُدھر کے ٹیکس چوروں نے ہی ستر سال سے لوٹ مار کرکے مُلک کو تباہ کیا ہے اور عوام کو خطے غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہواہے۔ اگرچہ، آج یہاں قومی احتساب کے اداروں میں مکمل اختیارات کی روح پھونک کر اِنہیں مُلک کے اندر اور باہر بیٹھے کرپٹ عناصرکے خلاف کارروائیوں کوعمل میں جلد از جلد لانے کے لئے آزا د کردیاگیاہے۔اَب ادارے بغیر کسی کے دباو ٔ اور ڈکٹیشن کے اپنے اختیارات کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے پرانے اور نئے(ماضی اور حال کے)بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے کرپٹ سیاستدان کی گرفتاری عمل میں لارہے ہیں،تو اِس پر بھی ظاہر باطن کرپٹ عناصر کا خیال یہ ہے کہ اِنہیں (احتساب اداروں کو )بھی کہیں نہ کہیں سےکنٹرول کرکے چلایا جارہا ہے ۔جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف احتساب کے عمل سے متاثرہ کرپٹ ٹولے کا خام دعویٰ ہے اور کچھ نہیں۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں