ذیابیطس اس دور کا حقیقی مسئلہ ہے کیونکہ موجودہ دور کی انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کا ابھی کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوسکا اورآج بھی ذیابیطس سے پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل جسم انسانی کی صحت کے لیے ایک حل طلب امتحان ہے۔
ذیابیطس کے مرض پر کچھ کہنے سے پہلے میں اس کی کچھ تاریخ طب یونانی کے حوالے سے بتانا چاہوں گا۔مرض ذیابیطس کا مستند حوالہ ہمیں سلطنت عثمانیہ کے حکماء﴿ طبیبوں﴾ کی کتابوں سے ملتا ہے۔ جہاں پر مختلف بادشاہ اس مرض کا شکار ہوئے۔
ذیابیطس کی طبی تعریف:
ذیابیطس وہ مرض ہے جس میں پیا ہوا پانی تھوڑی دیر کے بعد پیشاب کی صورت میں اس طرح خارج ہوجاتا ہے جس طرح کمزور معدہ میں سے غذا خارج ہو جایا کرتی ہے۔
ذیابیطس کی اقسام طب یونانی کی روشنی میں:.
بنیادی طور پر طب یونانی میں ذیابیطس کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے.
1. ذیابیطس حار﴿ سکری﴾
۲۔ ذیابیطس سادہ ﴿بارد﴾
1. ذیابیطس حار﴿ سکری﴾
ذیابیطس حار﴿سکری﴾ میں پیاس شدید ہوتی ہے، پیشاب بار بار آتا ہے اور مریض بہت جلد کمزور ہو جاتا ہے۔ پیشاب کا اگر امتحان کیا جائے تو اس میں میٹھاس ﴿شکر﴾ پائی جاتی ہے۔
ذیابیطس سکری فساد تعزید یا ہضم کبدی وعروق کی ایک مرض صورت ہے، جس کی تفصیل وتوضیح آسان نہیں۔
ذیابیطس کی ماہیت میں متعدد اور مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، چونکہ اس عمل میں آلات ہاضمہ کے علاوہ جگر، عضلات، خون کے اجزاء اورگلٹیوں ﴿Harmon’s ﴾ کے اعمال شریک ہیں اس لئے مندرجہ ذیل پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
١۔ ذیابیطس حار کی صورت میں خون کے اندر شکر کی مقدار اس لیے زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ جگر اپنا طبعی فعل مکمل طریقہ سے انجام نہیں دے رہا ہوتا۔
۲۔ بعض اوقات نظام عصبی میں فتور لاحق ہونے سے جگر میں اس قدر شکر پیدا ہونے لگتی ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ بذریعہ پیشاب خارج ہوتی ہے۔
۳۔ اس مرض کا سبب دماغ کے چوتھے بطن کے فعل کی خرابی سے بھی لاحق ہو جاتا ہے اور پیشاب میں شکر آنے لگتی ہے۔
۴۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کے ذیابیطس حار گردہ اور جگر کے خلل سے پیدا ہوتی ہے۔
۲۔ ذیابیطس سادہ ﴿ بارد﴾ ؛۔
ذیابیطس سادہ میں اگرچہ پیاس شدید ہوتی ہے اورخفیف زردی مائل پیشاب بہت زیادہ آتا رہتا ہےلیکن چونکہ اس میں پیشاب کے ہمراہ شکر نہیں خارج ہوتی لہذا اس کو ذیابیطس سادہ ﴿بارد﴾ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
١۔ بعض حکماء کے مطابق یہ مرض دماغ کے بطن موخر﴿ بطن چہارم﴾ میں ایک مرکز ہے جس کے چھیڑنے سے کثرت بول کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے، یہ مرکز بول سکری کے مرکز سے ذرا بلند ہے اس مرکز کی خرابی سے ذیابیطس سادہ پیدا ہو جاتی ہے۔
۲۔ دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ گردہ کی عروق دمویہ کا مرکزتحریک ﴿مرکز محرک عروق﴾ مفلوج ہو جاتا ہے، بعض اوقات یہ مرض شدید دماغی صدمات کی وجہ سے بھی رونما ہوا کرتا ہے۔
۳۔ بعض اوقات کثرت بول اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ گردے معتدل القوام قاروہ بنانے پر قادر نہیں رہتے اورفضلات بدن کے اندر باقی رہ جاتے ہیں جوتغیرو استحالہ سے پیدا کرتے ہیں اس وجہ سے مریض زیادہ پانی پینے پر مجبور ہوتا ہے تاکہ شاید یہ پانی اس کو حل کرکے نکال دے۔
اب ہم ذیابیطس کو موجودہ دور میں ہونے والی تحقیق کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ اس کے اسباب ہم پر مزید واضح ہو جائیں۔
ذیابیطس کیوں ہوتی ہے
جو خوراک ہم اپنے جسم میں لیتے ہیں وہ تین بڑے حصوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔
١۔ نشاستہ دار خوراک
۲۔ لحمیات
۳۔ چربی والی خوراک
اس میں لحمیات کا تعلق شوگر سے ہے لحمیات ہضم ہونے کے بعد شوگر کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ہمارے خون میں شامل ہو کر پورے جسم میں گھومتی رہتی ہے جیسے ہی خون میں اس کی مقدار خاص حد سے تجاوز کرتی ہے قدرتی طور پر لبلبہ سے ایک کیمیائی خامرہ انسولین کا اخراج ہوتا ہے۔ انسولین شوگر کو اٹھاکر اس خلیہ تک لے کر جاتی ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے یہ شوگر ہمارے جسم کا حصہ بن جاتی ہے۔
تاہم اگر لبلبہ انسولین کم مقدار میں یا بالکل ہی پیدا نہ کر پا رہا ہو تو شوگر خون میں ہی موجود رہتی ہے اور جسم کا حصہ نہیں بن پاتی اس لئے بلڈ ٹیسٹ ﴿Blood Test﴾ کروانے پر خون میں شوگر کی موجودگی آجاتی ہے ایسے شخص کو ذیابیطس تشخیص کرکے انسولین یا گولیاں تجویز کی جاتی ہیں۔
ذیابیطس کی اقسام دواؤں کے اعتبار سے:
دواؤں کے اعتبار سے ذیابیطس کے مریض دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو اپنی شوگر انسولین کے ذریعے قابو میں رکھتے ہیں انہیں انسولین پر انحصار کرنے والے مریض کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم ایسے مریضوں کی ہے جو گولیوں کے ذریعے شوگر کو لگام دیے رکھتے ہیں انسولین پر انحصار نہ کرنے والے مریض کہا جاتا ہے ۔
ذیابیطس کے نقصانات
ذیابیطس کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ شوگر جسم کا حصہ نہیں بن سکتی اس طرح جسم مقررہ توانائی حاصل نہیں کرپاتا اور نحف ہوتا جاتا ہے۔
ذیابیطس کا دوسرا بڑا نقصان انسان کے اہم اعضاء جیسے دل گردہ آنکھیں اور دانت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ذیابیطس کی اقسام مریض کے حوالہ سے؛
ذیابیطس کے مریض کو دو درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1. ٹائپ ون ذیابیطس
2. ٹائپ ٹو ذیابیطس
1.ٹائپ ون ذیابیطس
ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ بہت ہی کم انسولین پیدا کرتا ہے جو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یا لبلبہ انسولین بنانا مکمل طور پر بند کردیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کا دفاعی امنیاتی نظام خود لبلبے کے خلیات کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے۔
2. ٹائپ ٹو ذیابیطس
ٹائپ ٹو ذیابیطس مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا لبلبہ انسولین تو پیدا کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ کچھ کارآمد اور کچھ بیکار ہوتا ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتے ہی لبلبہ ناکارہ انسولین بنانے لگتا ہے اور مفید انسولین بہت کم بنتی ہے۔ اس مرض میں دل کے امراض کا اتنا ہی خطرہ ہوتا ہے جو ایک باقاعدہ شوگر کے مریض کو ہوتا ہے۔
اس مرض میں وزن بڑھنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ زیادہ کھانے لگتا ہے اور اگلے مرحلے میں جسم میں انسولین میں تیزی سے کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں انرجی ڈرنکس کی وجہ سے نوجوانوں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انرجی ڈرنکس کے استعمال سے دور رہنا چاہیے اور اس کی جگہ لسی سکنجبین ستو وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔
۲ یا ۳ انرجی ڈرنکس پینے والے% 20سے% 25 نوجوان روزنہ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
اب اس مرض کو مزید آسانی سے سمجھنے کے لیے میں اسے مزید 5 گروپس میں تقسیم کر کے آپکو سمجھاتا ہوں۔
شوگرکی پانچ اقسام؛
ایک محطاط اندازہ کے مطابق دنیا میں تقریبا ہر گیارواں بالغ شخص ذیابیطس سے متاثر ہے اور اسے دل کا دورہ پڑنے، فالج ہونے، بصارت متاثرہونے یا گردے ناکارہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس نظام مدافعت کی بیماری ہے یہ انسانی جسم کی انسولین فیکٹریوں﴿ بیٹا سیلز Beta Cell ﴾ پر حملہ کرتی ہے تاکہ جسم میں یہ ہارمون اتنی مقدار میں موجود نہ رہ سکے کہ وہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کر سکے۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کا تعلق عموما طرز زندگی سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم میں جمع چربی انسولین کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔
موجودہ دور کی تحقیق کے مطابق شوگر کے مریضوں کو پانچ گروپوں میں کچھ اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
گروپ 1 – Autoimmune Diabetes
شدید آٹو امیون ذیابیطس روایتی ٹائپ 1 جیسی ہے. یہ مریض کو اس وقت نشانہ بناتی ہے جب وہ جوان ہوتا ہے اور بظاہر صحت مند بھی لیکن یہ بیماری اس کے جسم میں مدافعتی نظام کو نشانہ بناکر انسولین پیدا نہیں ہونے دیتی۔ اس گروپ کے مریضوں کا تناسب تقریبا﴿6﴾ فیصد ہے۔
گروپ 2 Insulin Deficient Diabetes
شدید انسولین کی کمی والی ذیابیطس کے مریض ابتدائی طورپر گروپ ون کے مریض جیسے ہی لگتے ہیں. وہ جوان ہوتے ہیں ان کا وزن مناسب ہوتا ہے لیکن جسم میں مدافعتی نظام ٹھیک ہونے کے باوجود انسولین پیدا نہیں ہوتی اس گروپ کے مریض کی تعداد کا تناسب تقریبا(18) فیصد ہے۔
گروپ 3 Insulin Resistant Diabetes
اس قسم کی ذیابیطس کے مریض کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے جسم میں اگرچہ انسولین بن رہی ہوتی ہے لیکن وہ اثرنہیں کرتی.ایسے مریض کی تعداد کا تناسب تقریبا﴿15﴾ فیصد ہے۔
گروپ 4 Obesity Related Diabetes
موٹاپے سے متعلق ذیابیطس کے شکار افراد ہوتے ہیں جن کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن میٹابولزم کے حوالے سے وہ تیسرے گروپ کے قریب تر ہوتے ہیں. ایسے مریض کی تعداد کا تناسب تقریبا (22) فیصد ہوتا ہے۔
گروپ 5 Age Related Diabetes
عمر سے متعلقہ ذیابیطس کے مریض میں بیماری کی علامات دیگر گروپوں کے مقابلے میں زیادہ عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور انکی بیماری بھی زیادہ شدید نہیں ہوتی۔ ایسے مریض کی تعداد کا تناسب﴿39﴾ فیصد ہوتا ہے۔
خون میں شوگرکی بڑھتی ہوئی سطح اور علامات
اگر خون میں شوگر کی سطح کھانے سے پہلے 140 mg/dl سے زیادہ اور کھانے کے بعد 180mg/dl سے زیادہ ہو تو اس کو ہائپر گلا ئسیمیا یا ہائی بلڈ شوگر کہتے ہیں۔
اسباب؛
زیادہ کھانا، جسم میں انسولین کا کم پیدا ہونا یا شوگر کی دوا کا استعمال نہ کرنا، جسمانی کمزوری اور عصابی تناؤ
علامات؛
1. بہت زیادہ پیاس لگنا
2. زیادہ بھوک لگنا
3. مںہ اور جلد میں خشکی کا احساس ہونا
4. عام حالات سے زیادہ پیشاب آنا
5. زخم اور گھاؤ کا آہستگی سے ٹھیک ہونا
6. سستی محسوس ہونا
7. وزن میں کمی
8. پاؤں میں سوہیاں چبھنے کا احساس ہونا
9. تھکاوٹ محسوس ہونا
10. دھندلا نظر آنا
ایسی علامات میں آپ کو مندرجہ ذیل اقدامات کرنے چاہیے۔
1. اگر خون میں شوگر کی سطح بڑھنے کی علامات ہیں تو گلوکومیٹر کی مدد سے چیک کریں۔
2. اگر شوگر کی سطح نارمل سے زیادہ ہو تو ایسے میں پانی کا مناسب مقدار میں استعمال کریں اور اپنے دوائی، ورزش اور پرہیز پر توجہ دیں۔ شوگر کی سطح بڑھنے کے اسباب پر نظر رکھیں۔
3. اگر علامات نارمل نہ ہو اور شوگر کی سطح مسلسل بڑھتی رہے تو اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
خون میں شوگر کی کم سطح اور علامات( Hypoglycemia);
اگر آپ کے خون میں شوگر کی سطح mg/dl 70 یا اس سے کم ہے تو اس کو ہائیو گلا ہیمیا یا لو بلڈ شوگر کہتے ہیں۔
اسباب؛
بہت کم غذا کا کھانا یا غذائی ناغہ کرنا، بہت زیادہ انسولین اور ذیابیطس کی ادویات کا استعمال کرنا۔
علامات؛
1. چکر آنا / کمزوری محسوس ہونا
2. بےچینی / رویے میں تبدیلی
3. بھوک زیادہ لگنا
4. لرزش، کپکپی طاری ہونا
5. تیز دھڑکن
6. دھندلا نظر آنا
7. تھکاوٹ محسوس ہونا
8. سردرد
9. اعصابی تناو یا پریشانی
10. پسینہ آنا
ایسی علامات میں آپ کو مندرجہ ذیل تدابیر لینی چاہیے۔
1﴾ اگر آپ کے خون میں شوگر کی سطح کم ہونے کی کوئی علامات محسوس ہو تو فوری طور پر معائنہ کروائیں اور شوگر چیک کروائیں۔
2﴾ شوگر کی سطح کم ہونے کی صورت میں اس کا علاج کریں
ایسے میں کوئی بھی میٹھی چیز﴿15 گرام﴾ کھائیں اس کے علاوہ 3 سے 4 گلوکو ز کی گولیاں، 4 اونس ﴿1/2 کپ﴾ کسی بھی پھل کا جوس یا کوئی بھی میٹھی ٹوفی کھائیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے پاوں کی انتہائی نگہداشت کرنی چاہیے اور روزانہ پاؤں کا بغور معائنہ کیا کریں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو ہمیشہ آرام دہ جوتے استعمال کرنے چاہیں اور پاؤں کے زخم کا بہترین علاج یہ ہے کہ پاؤں میں زخم بننے ہی نہ دیا جائے۔
شوگر سے بچاؤ کے لیے بہترین غذائیں؛
شوگر ایک ایسی موذی مرض ہے جو دیمک کی طرح خاموشی سے انسانی جسم کے اندرونی اعضاء کو چاٹ جاتا ہے اور بروقت معلوم نہ ہوسکے تو مریض کئی پچیدہ بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
موجودہ عہد میں ہمارا طرز زندگی خاص طور پر ہماری غذائی عادات ایسی ہیں جو اکثر افراد کو اس جان لیوا مرض کا شکار بنا دیتی ہیں۔
چند ایسی غذائیں ہیں جو اسے پھیلنے سے روکتی ہیں اور ان کے بارے میں جاننا یقینا آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔شوگر کے طبی علاج کے لئے مندرجہ ذیل غذا نہایت اہم ہیں اور ذیابیطس کے مریض کو ان کا استعمال اپنا معمول بنا لینا چاہیں۔
غذاہیں؛
مچھلی، زیتون کا تیل، پالک، اخروٹ، دارچینی، ہلدی ،جو کا دلیہ، جامن، کریلا، میتھی، گڑمار بوٹی بہیرے، سدا بہار بوٹی، مغز تخم نیم، تیز پات، تلسی، آملہ، مغز تخم بکائن، زمرد، چوکر والے آٹے کی روٹی اور سلاد۔
پرہیز؛
چینی، مٹھائی، بیکری آیٹم، کولڈ ڈرنک، تلی ہوئی چیزیں نان میدہ وغیرہ اپنی خوراک سے نکال دے یا بہت کم استعمال کریں۔
اگر ہو ھو تو ایک ٹائم میں خوب کھانے کی بجائے 4 سے 5 بار تھوڑا تھوڑا اور صحت مند غذائیں کھائیں۔ اس طرح شوگر کی سطح بتدریج اور سست رفتاری سے بڑھے گی اور معاملات کنٹرول میں رہیں گے۔
علاج؛
ذیابیطس کو کنٹرول کرنا آسان ہے اگر آپ مندرجہ ذیل ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔
1. اپنی غذائی معمولات کی پابندی کیجیے
2. روزانہ کے معمول کے مطابق ورزش کریں
3. دوا معالج کی ہدایت کے مطابق اور صحیح وقت پر لیں
4. بلڈشوگر ٹیسٹ کروا کر اس کے مطابق دوا کی مقدار میں رد و بدل کریں
5. معالج کی ہدایت کے مطابق مناسب دوا سے انفیکشن کا علاج کروائیں