The news is by your side.

حکومت کے دو ماہ اورکچھ صحافیوں کے یوٹرن

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو آئے ہوئے دوماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، کسی بھی حکومت کے ابتدائی چند ماہ کو ہنی مون کا دورانیہ کہا جاتا ہے ، اسی دورانیے میں ڈی پی او پاکپتن کی تبدیلی کا واقعہ، وزیر اعظم کی کفایت شعاری مہم اور ہیلی کاپٹر سے آنا جانا اور اسی پر فواد چوہدری کا بیان کہ ہیلی کاپٹر کا خرچہ پچپن روپے ہوتا ہے۔پروٹوکول کے خلاف بیانات اور صدر عارف علوی صاحب سمیت وزراء کی پروٹوکول کی وڈیوز کسی مشیر کو لگا دینا اور پھر اتار دینا یہ وہ غلطیاں ہیں جس کی وجہ سے حکومت نے خود ہی ہنی مون کے دورانیہ کو کرکرا کرنے کا سامان پیدا کیا اور ان واقعات پر میڈیا کی تنقید جائز بھی تھی۔ میڈیا کا کام ہی حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کو بغور دیکھنا اور تنقید کرنا ہے ۔

یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن دوسری جانب میڈیا پر کچھ تنقید ایسی بھی نظر آئی جس میں بظاہر تو دلیل نظر آتی ہے مگر بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اس دلیل میں زیادہ دم خم نہیں یا پھر دلیل دینے والا صحافی خود اپنی دی ہوئی دلیل کے خلاف یو ٹرن لیتا نظر آیا اور یہ یوٹرن کوئی ایک ہفتہ بعد یا تین چار دن بعد بھی نہیں بلکہ اسی پروگرام کے دس یا بیس منٹ بعد اپنی ہی کہی ہو ئی بات کو بھلا کر یا رد کرکے اس کے برعکس بات کر دی۔

مثلاً ایک صحافی نے کابینہ کی تشکیل پر کہا کہ یہ کس قسم کی کابینہ ہے جس میں زیادہ تر بندے مشرف کی کابینہ کے لیے ہیں یہ کیا تبدیلی لائیں گے یہ کیا نیا پاکستان بنائیں گے۔ یہ دلیل ویسے ماننے والی ہے یہ دل کو لگتی ہے یہ پرانے چہرے کیا تبدیلی لائیں گے مگر جب وہی صحافی اسی پروگرام میں یہ کہے کہ یہ نئے وزراء کیوں لگائے ہیں، ان کا تو کوئی تجربہ ہی نہیں یہ کام کیسے کریں گے یعنی پرانے کیوں لگائے تبدیلی کیسے لائیں گے اور پھر وہی بندہ کہہ رہا کہ نئے کیوں لگائے انک ا تو تجربہ نہیں۔ اب پہلی دلیل کو ٹھیک مانا جائے یا دوسری کو درست کہا جائے۔ دونوں تو ٹھیک نہیں ہو سکتی اور دونوں دلیلیں ایک ہی بندے سے ایک ہی پروگرام میں سننے کے بعد کیا عام بندے کو سر پکڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے؟۔

ایک اور صحافی نے تو حد کر دی کہا کہ شاہ محمود قریشی تو پہلے بھی وزیر خارجہ رہے ہیں یہ کیا تبدیلی لائیں گے ، پھر کہا کہ میاں محمد سومرو تو فلاں کی کابینہ میں رہے ہیں یہ کیاتبدیلی لائیں گے ۔ اس کے بعد جب میاں محمد سومرو نے کہا کہ وہ وزیر مملکت کا حلف نہیں لیں گے بلکہ ان کو وفاقی وزیر بنایا جائے تو اگلے پروگرام میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ موجودہ حکومت کو تو کچھ پتہ نہیں اس کو چاہئے تھا کہ میاں محمد سومرو جیسے تجربہ کا ر آدمی سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا فخر امام جیسے آدمی فائدہ اٹھانا چاہئے تھا اور اب جب وہ دونوں بن وفاقی گئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ موصوف نے اگلے شو میں پھر کہنا شروع کر دیا ہو کہ یہ کیا تبدیلی لائیں گے اب کونسی دلیل کو احسن اور مقدم سمجھا جائے اور وہ بھی ایک ہی صحافی کی دی ہوئی مشرق اور مغرب کی طرح ایک دوسرے کی مخالف دلیلیں۔

پھر ایک صحافی نے وزیر اعظم کی کفایت شعاری کی مہم پر شدید تنقید کی کہ یہ تو وزیر اعظم کا حق ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاوس میں رہے اور سکیورٹی لے اور یہاں تک کے پروٹوکول بھی لے اور جہاز بھی استعمال کرے اور اس مہم سے کوئی زیادہ پیسے نہیں بچیں گے، اس کے بعد جب وزیر اعظم نے سکریٹری کے گھر کا انتخاب کیا تو انہی محترم نے شور مچا دیا کہ سیکرٹری کا گھر تو وزیر اعظم ہاؤس سے بھی بڑا ہے، اس کا انتخاب کیوں کیا ؟، ایسے کیسے کفایت شعاری ہو گی وغیرہ وغیرہ۔۔ انسان سر نہ پکڑے تو کیا کرے ؟۔
پھر آئی ایم ایف کے قرضہ پر جب وزیرخزانہ نے کہا کہ آپشن موجود ہے مگر ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ جائیں گے یا نہیں تو میڈیا نے عمران خان کے اور اسد عمر کے پرانے بیانات چلانے شروع کر دیئے جو کہ بالکل میرٹ پر چلے کہ ماضی کے بیانات ایسے تھے تو اب کیوں قرض لیا جا رہا ہے مگر جب سارے آپشن کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہوگیا تو میڈیا نے کہنا شروع کر دیا کہ جانا تو تھا پہلے دن ہی چلے جاتے تاخیر سے کیوں گئے اور اگر حکومت پہلے دن ہی چلی جاتی تو کہا جاتا دیکھا کوئی آپشن نہیں دیکھا کسی ملک سے بات نہیں کی،یہ تو حکومت ملتے ہی آئی ایم ایف کے قدموں میں گر گئے۔۔۔دیکھنے اور سننے والا سر نہ پکڑے تو کیا کرے۔

کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو گذشتہ الیکشن میں بھی کہتے تھے کہ دھاندلی ہوئی اور اس بار بھی کہتے ہیں کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے یعنی انتخابات کے طریقہ کار سے لے کر کمزوریوں کو مد نظر رکھتے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دھاندلی ہوتی ہے مگر کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو گذشتہ الیکشن کے بعد یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے اوروہ اس ایشو کو نان ایشو سمجھتے تھے مگر اب کی بار ان کی نظر میں خوب دھاندلی ہوئی ہے اور جب باقی ایشو پر بات ہو رہی ہوتی ہے ، وہ گاہے بگاہے دھاندلی کی ہی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے پرانے اور نئے بیانات کو موازنہ بالکل ویسے ہی چلایا جائے جیسے سیاستدانوں کا چلتا ہے تو ان کے یو ٹرن کے آگے سیاستدانوں کے یو ٹرن تو انتہائی معصومانہ غلطیاں نظر آئیں گے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں