محترم کالم نگارجن کی کتابیں اور کالم بڑے معلوماتی اور تحقیقاتی ہوتے ہیں ،نے گذشتہ دنوں ایک کالم لکھا جس کا عنوان’اگروہ مرگیا تو‘ تھا یہ نواز شریف کی جیل کی زندگی کے بارےمیں۔اس کالم میں محترم کالم نگار نے تاریخ کے بھی کچھ حوالے دیےاورنوازشریف کو ان شخصیات کے ماضی سے جوڑنے کی کوشش کی جن کے نام کے ساتھ میاں صاحب کا نام لینا ہی خود ان شخصیات کے ساتھ زیادتی ہے۔ کہاں نپولین جس کے کھاتے میں فتوحات ہیں، جنون ہے، کتاب بینی ہے، استقامت ہے، اب خود فیصلہ کر لیں میاں صاحب ایسے ہیں؟؟۔
کہاں سقراط جو کہ فلسفی تھا ،اصولوں اور حق گوئی پر جان قربان کرنے والا ہر قوم اورمذہب کے ماننے والوں کے لیےغیرمتنازعہ شخص جلاوطنی سے بہترموت کا جام پینے والا سقراط اور کہاں میاں صاحب ہے کوئی موازنہ؟؟ بہادر شاہ ظفر اگرچہ مغل بادشاہوں کی تاریخ کی سب سے تلخ حقیقت ہے مگر بہادر شاہ ظفر کو ان کی انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں ہندوں اور مسلمانوں کو ایک کرنے اور انکی کتاب بینی کی وجہ سے جانا جاتا ہے ان کی شاعری بھی ان کی پہچان تھی ہے کوئی موازنہ؟؟۔بھٹو صاحب ایک مسحور کن شخصیت جن کی تقاریر ولولہ پیدا کرنے والی، جن کی ٹیبل ٹاک پانسا پلٹنے والی ،جن کی موت کا ذمہ دار ایک آمر، اتفاق سے اتفاق فاؤنڈری والوں کا مددگار،جن کا قتل بلاشبہ عدالت میں کیس چلنے کے باوجود ماورائے عدالت قتل۔۔ہے کوئی موازنہ؟؟۔
محترم کالم نگار نے ایک دلیل قائم کرنے کی کوشش کی کہ لوگ معاف نہیں کریں گے یا بھلا نہیں سکیں گے اگرخدانخواستہ ان کو کچھ ہو گیا تو۔۔تو جناب والا عرض یہ ہے کہ محترم کالم نگار کی کتاب میں انھیں کو انٹریو دیتے ہوئے میاں صاحب نے کہا تھا کہ لوگوں نے مجھے کہا قدم بڑھاو ہم تمھارے ساتھ ہیں مگر جب قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھاوہ جن کی موت کےحوالے دیے وہ جنونی تھے اصولی تھے انکے چاہنے والے بھی ویسے ہی جنونی تھے ان کے خلاف فوجداری مقدمات نہیں تھے لندن میں فلیٹس اور دوسرے ملکوں میں فیکٹریاں نہیں تھیں وہ تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں۔
آگے چل کرمحترم کالم نگار نے ان شخصیات سے ملانے کے بعد خود ہی اپنے بیانیہ یا دلیل کی یہ کہہ کربینڈ بجا دی کہ میاں صاحب اب جارحانہ سیاست نہیں کر رہے وہ اندر سے ٹوٹ چکے ہیں اور خود ہی کہہ دیا کہ ا ن کی پارٹی نام کی مزاحمت کر رہی ہے تو کہاں گئے میاں صاحب کے اصول اور چاہنے والوں کا جنون؟؟اور یہ جملہ لکھ کر اپنے دلیل کے تابوت پر کیل ٹھوک دیا کہ ووٹ تو اس کو دیں گے مگر اس کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیارنہیں۔ محترم کام نگار نے لکھا کہ وہ بیماریوں علاج کروانے کو تیار نہیں مگر محترم کالم نگار کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ وہ ضمانت لے کر رہا ہونے کو تیار ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں علاج کروانے کو تیارنہیں۔آگے جاکر محترم کالم نگارنے یہ لکھا کہ جیل کی زندگی نفسیاتی طور پر اثر مرتب کرتی ہے۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ محترم انکو ڈرا رہے ہیں یاحوصلہ باندھ رہے ہیں؟؟
محترم کالم نگار نے تاریخی اور عقلی دلیل دینے کے بعد ایک جذباتی وار کرنے کی بھی کوشش کی مگر اس پر تبصرہ مناسب نہیں۔۔۔مگر جس اصول اور لڑائی کی بات محترم نے کی اور میاں صاحب کو اصولی ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ایک جملہ لکھ کرکہ اب اصل حکومت کی طرف سے کوئی دباو ٔنہیں اس کو بھی خود ہی اڑا دیا یعنی اصل حکومت والے اگر اب دباونہیں ڈال رہے تو اس کا مطلب میاں صاحب نے کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کیا ہوگا تو کہاں گئی لڑائی اور اصول اور نظریاتی سیاست؟؟
اورآخرمیں میاں صاب کی بےگناہی اصولی سیاست اور نظریہ پر امید رکھنے کی بجائے موجودہ حکومت کی کار کردگی پر امید رکھی کہ اگر مہنگائی ڑھتی رہی تو حالات میاں صاحب کےحق میں ہو جائیں گےتو یہاں محترم سے کوئی پوچھے کہ اگرحالات اس کے برعکس ہوئے تو کیا لوگ میاں صاحب کو بھلا دیں گے؟۔